خطاب چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر جسٹس چوہدری محمد ابراہیم ضیاء، بر آغاز عدالتی سال از 2 اکتوبر 2017

Monday, October 2nd, 2017 @ 10:29AM

خطاب

 چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر جسٹس چوہدری محمد ابراہیم ضیاء،

 بر آغاز  عدالتی سال  از    2  اکتوبر 2017۔

فاضل بھائی جج صاحبان،

  ایڈووکیٹ جنرل رضا علی خان صاحب

وائس چئیرمین بار کونسل شوکت علی کیانی صاحب،

صدور ،عہدیداران  ممبر ان و اراکین  سپریم کورٹ، ہائی کورٹ ، ضلعی و تحصیل انجمن ہائے وکلاء آزاد جموں و کشمیر،

دیگر معزز شرکاء تقریب،  خواتین و حضرات،

 السلام علیکم۔۔۔

            سب تعریفیں خالق کائنات  کے لئےجس  سےاپنے سب کاموںمیں استعانت کے طلبگارہیں اور اپنی تمام  کمزوریوں ، کوتاہیوں  پر اسی سے معافی کے لئے رجوع کرتے ہیں۔ اپنی کوششوں اور کاوشوں کی ثمر آوری کے لئے اسی ذات پر کامل توکل ہے۔

ھماری ساری عقیدتیں، محبتیں اور  درود و سلام، نبی رحمت ﷺ پر جو  وجہ تخلیق کائنات ہیں جن پر دین اور نبوت کی تکمیل ہوئی، اور  انسانیت کو  دنیاوی اور اخروی فلاح کے لئے کامل شریعت اور قانون نصیب ہوا۔

 خالق کائنات کی توفیق سے ہمارا ایک عدالتی سال مکمل ہو گیا ہے اور آج سے نئے عدالتی سال کا آغازکر رہے ہیں۔  میں آج کی تقریب کی غرض و غایت کی طرف آنے سے قبل آزاد کشمیر کی ان تمام شخصیات کو عدلیہ اور وکلاء کی طرف سے خراج تحسین پیش کرتا ہوں  جنہوں نے اس ریاست کے قیام، یہاں کے لوگوں کے بنیادی حقوق کے حصول اور ایک مہذب  اور قانونی معاشرہ تشکیل دینے کے لئے گرانقدر خدمات انجام دیں۔  ان میں تمام سیاسی قائدین، فاضل پیشرو چیف جسٹس صاحبان، جج صاحبان جو ہم میں موجود ہیں یا فانی زندگی کے تقاضوں سے چھٹکارا پا چکے ہیں انکی خدمات ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔

سال گذشتہ میں جو کارکردگی رہی اس کا مابعد تذکرہ آ رہا ہے تا ہم اس  سے قبل  میں اپنے فاضل بھائی  جج صاحبان کی بصیرت، انتھک محنت اور لگن کا تذکرہ کئے بٖغیر نہیں رہ سکتا جس کی بناء پر ہم نظام فراہمی انصاف  کی منزل کی طرف  گرانقدر پیشرفت کرسکے ہیں۔ سپریم کورٹ کے تمام عملہ کی کارکردگی کو بھی سراہتا ہوں جنھوں نے شبانہ روز محنت کر کے فراہمی انصاف میں اہم کردار ادا کیا  اور سب سے بڑھ کر اللہ کے فضل و کرم سے سال بھر میں عدالتی عملہ کے حوالہ سے کسی بھی قسم کی بد معاملگی، نااہلی، بددیانتی یا عام لوگوں سے کسی قسم کی بد اخلاقی کی کوئی شکایت نہ پائی گئی ہے۔ سپریم  کورٹ کے عملہ کے کردار کے حوالہ سے وکلاء اور عوام الناس کی طرف سے اطمینان کا اظہار عملہ کی اعلیٰ اخلاقی اقدار کا واضح ثبوت ہے۔ میں سپریم کورٹ کے تمام عملہ سے توقع رکھتا ہوں  کہ اس منفرد انداز و کردارکو نہ صرف برقرار رکھیں  گےبلکہ اس میں مزید بہتری لا کر باقی  تمام ریاستی اداروں کے لئے قابل تقلید مثال قائم کریں گے۔

            چیف جسٹس و جج صاحبان عدالت عالیہ، ضلعی عدلیہ کے جج صاحبان و قاضی صاحبان کا بھی مشکور ہوں کہ اُنہوں نے نظام فراہمی انصاف میں بھر پور کردار ادا کیا ۔ اگرچہ مکانیت ،ججز کی تعداد اور وسائل میں کمی کے مسائل موجود رہے جن کو حل کرنے کے لیے کاوشیں جاری ہیں تاہم توقع ہے کہ مزید بہتری کی کوشش جاری رکھی جائے گی۔

بار اور بینچ تعلقات:

            میں اپنی طرف سے  اور فاضل جج صاحبان کی طرف سے آزاد کشمیر کی وکلاء برادری، وائس چئیرمین بار کونسل، ممبران بار کونسل، صدور و، عہدیداران  و اراکین سپریم کورٹ ، ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، سنٹرل بارایسوسی ایشن، ضلعی و تحصیل بار ایسوسی ایشن ہا کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے نظام فراہمی انصاف کے لئے اٹھائے گئے اقدامات  کے حوالے سے تعاون کیا اور کارکردگی کو بہتر بنایا۔

            میں اس عدالتی سال کے دوران آزاد کشمیر کی وکلاء برادری ، بار ایسوسی ایشنز ہا و بار کونسل کے بے مثال  تعاون ،  میرے بھائی سابق چیف جسٹس صاحب کی ریٹائرمنٹ یا نئی تعیناتی پر منعقد کی گئی تقاریب، بار اور بینچ کے خوشگوار تعلقات کے لیے اُٹھائے گئے مثبت اقدام  اور بار ایسوسی ایشن ہا کی طرف سے منعقد کی گئی دیگر تقاریب کو سراہتا ہوں۔ ماسوائے ضلع حویلی اور بھمبر کے باقی تمام اضلاع میں بار ایسوسی ایشنز ہا میں جانےاور نظام فراہمی انصاف کے لیے مل بیٹھنے کے مواقع ملے جن کا بھرپور استفادہ کیا۔ اللہ کا شکر ہے کہ سال بھر میں ایسا کوئی نا خوشگوار  واقعہ پیش نہیں آیا جس سے بار بینچ تعلقات متاثر ہوں۔

            سامعین گرامی!۔۔ جو کچھ بہتر کام ہم سے ہو سکا وہ صرف اللہ کی توفیق اور فضل سے ہے  اور جو کمی رہ گئی اس میں ہماری کمزوری اور کوتاہی ہے جس کو دور کرنے کی بھر پور کوشش  کریں گے۔

عدالتی کارکردگی: 

           عدالتی سال اکتوبر 2016 تا ستمبر 2017  اعداد و شمارکے آئینے میں کچھ اس طرح ہے:-

سابقہ زیر کار مقدمات

عدالتی سال17-2016  میں دائر شدہ  مقدمات

کل مقدمات

فیصلہ شدہ دوران

17-2016

بقیہ مقدمات

مظفرآباد

439

1259

1698

1300

398

میرپور

551

805

1356

891

465

راولاکوٹ

75

121

196

123

73

کل میزان

1065

2185

3250

2314

936

                        یہ اعدادو شمار الحمدللہ اس اعتبار سےقابل اطیمنان  ہیں  کہ ہمارا تناسب  منفی نہیں بلکہ مثبت ہے  کہ گذشتہ  عدالتی سال میں فیصلہ شدہ مقدمات  کی تعداد دائرہ شدہ اور سابقہ زیر التواء مقدمات سے زیادہ رہی اس طرح زیر التواء مقدمات میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے  ۔   یہاں پر اس بات کا تذکرہ اللہ کے شکر کے ساتھ امتیازی طور کیا  جا سکتا ہے کہ برصغیر میں آزادجموں و  کشمیرسپریم کورٹ کو یہ منفرد  اعزاز حاصل ہے کہ  پرانے زیر التواء مقدمات کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اور تینوں سرکٹ ہا  میں 2015 سے پہلے کے زیر التواء مقدمات کی کل تعداد صرف 43ہے جن میں مظفرآباد میں 10، میرپور 27  اور راولاکوٹ میں  6 مقدمات ہیں۔  ان مقدمات کے  زیر التواء ہونے کی وجہ عدالتی کارکردگی  یا  عدم توجہ نہیں بلکہ ایسی ناگزیر  وجوہات ہیں جن کا کوئی متبادل حل نہیں۔ مثال کے طور پر فوجداری مقدمات میں ملزمان بیرون ملک فرار ہوئے ان کی گرفتاری  تک مقدمات التواء کا شکار ہیں۔ اسی طرح دیوانی مقدمات میں  فریقین کی عدم دستیابی  اور دیگر کئی ناگزیر وجوہات ہیں جن کی بناء پر مقدمات التواء کا شکار ہیں یا کچھ مقدمات کی سماعت کے لئے ایڈہاک جج کی ضرورت ہے۔ سپریم کورٹ  کے تینوں سرکٹ ہا میں اس وقت  کل زیر کار مقدمات میں 2017 کے مقدمات کی تعداد زیادہ ہے؛ 2016 کے مقدمات کی تعداد اس سے کم ہے ۔  میرے نقطہ نظر سے سپریم کورٹ میں17-2016  کے مقدمات کو زیر التواء شمار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ قواعد و ضوابط کی رو سے دائری درخواست استعجازت اپیل، اور مابعد اجازت اپیل فریقین کی طرف سے تحریری بحث، ریکارڈ کی طلبی وغیرہ اور بسا اوقات کسی فریق کی وفات کی صورت اس کے قانونی وارث مقرر کرنا  ایسے مراحل ہیں جن میں قانونی تقاضوں کے مطابق 5/6  ماہ کا وقت   لگنا معمول کی بات ہے ۔اس طرح یہ بات  قابل اطیمنان ہے کہ سپریم کورٹ آزادجموں و کشمیر  اپنی کارکردگی کے اعتبار سے منفرد حیثیت کی حامل ہے  کہ  دیرینہ مقدمات  زیر التواء نہیں ہیں۔

میں اس بات کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں کہ  جہاں پر مقدمہ کی نوعیت اور مفاد عامہ کے پیش نظر غیر معمولی توجہ کی ضرورت تھی تو عدالت نے قواعدمیں نرمی کرتے ہوئے اپنا اختیار استعمال کر کے فوری فیصلہ کے لئے اقدامات کئے ایسے درجنوں  مقدمات کے فیصلے ہفتے اور مہینوں میں نہیں بلکہ دنوں میں کئے گے۔ان میں  سے چند ایک مقدمات عنوانی عامر شمیم بنام آزاد حکومت وغیرہ، عابدہ بی بی  بنام ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر، امیر افضل خان بنام ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر وغیرہ، ذوالفقار اختر خان بنام آزاد حکومت وغیرہ، مدثر حسین بنام آزاد حکومت وغیرہ، محمد عرفان سلیم بنام سیکرٹری تعلیم وغیرہ، محمد اسلم چوہدری بنام آزاد حکومت وغیرہ ، چیف انجینئر عمارات بنام الیاس عالم ، محمد فیاض عباسی بنام عتیق الرحمان ، چوہدری محمد یٰسین وغیرہ بنام آزاد حکومت وغیرہ،  سردار عتیق احمد خان بنام سردار خان بہادر خان  اورحالیہ دنوں  میں  سول ججز کی تقرری کے حوالہ سے  مقدمہ عنوانی شہزاد انور بنام آزاد حکومت وغیرہ شامل ہیں ۔

اہم نوعیت کے مقدمات:

                          گزشتہ  عدالتی سال کے دوران معمول کے مقدمات کے علاوہ اہم نوعیت کے مفاد عامہ سے متعلق مقدمات بھی زیر سماعت آئے جو آزاد جموں وکشمیر کی آئینی تاریخ میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں جن میں مقدمات عنوانی سردار غلام صادق بنام خان بہادر خان، چوہدری لطیف اکبر بنام آزاد حکومت وغیرہ، محمد عظیم دت بنام راجہ خادم حسین، آزاد جموں و کشمیر کونسل وغیرہ بنام آزاد حکومت وغیرہ، آزاد حکومت وغیرہ بنام سردار مختار خان، آزاد حکومت وغیرہ بنام سید خالد حسین ، راجہ اخلاق حسین کیانی بنام چیف الیکشن کمشنر، احمد نواز تنولی بنام چیئرمین اے جے کے کونسل وغیرہ ، آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس بنام سردار میر اکبر خان قابل ذکر ہیں۔

 نئی آئینی روایات:

                        سال گزشتہ کئی ایک اعتبار سے منفرد رہا ۔میرے  بھائی فاضل پیشرو  جسٹس محمد اعظم خان اپنی آئینی مدت کی تکمیل پر ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوئے ،میرے فاضل بھائی جج جسٹس غلام مصطفیٰ مُغل صاحب  سپریم کورٹ میں  بطور جج تعینات ہوئے۔آزادکشمیر کی عدالتی تاریخ میں پہلی بار آئین کی روح کے مطابق چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر، چیف جسٹس ہائیکورٹ اور جج سپریم کورٹ کی بروقت مستقل تقرری عمل میں لائی جا کر ماضی میں جو ایکٹنگ تقرری طویل عرصہ تک کرنے اور مستقل تقرری میں تاخیری حربے  سے جو منفی تاثر پایا جاتا تھا اُس کا تدارک کیا گیا۔ اس حوالہ سے متعلقہ اداروں ، چیئرمین کشمیر کونسل، صدر ریاست، وزیراعظم اور کشمیر کونسل کا کردار قابل تعریف رہا۔ توقع کی جاتی ہے کہ آئندہ بھی آزاد جموں و کشمیر میں اس روایت کو قائم رکھا جائے گا۔

سروس ٹربیونل کی تکمیل:

                     کچھ  عرصہ سے سروس ٹربیونل میں اپیلوں کے فیصلہ جات چئیرمین کی عدم تعیناتی کی وجہ سے نہیں ہو پا رہے تھے  اور ھزاروں مقدمات زیر التواء تھے۔ اس سال سروس ٹربیونل کے چئیرمین اور ممبران کی تقرری عمل میں لائی  گئی۔ سروس ٹربیونل کی تکمیل اور چئیرمین کی تعیناتی سے ملازمین کی طویل عرصہ سے زیر التواء اپیلوں کی سماعت کی راہ ہموار ہوئی ہے۔

اھم قانون سازی:

                        گزشتہ عدالتی سال کے دوران آزاد جموں و کشمیر میں نظام فراہمی عدل کے حوالے سے قانون سازی کے سلسلہ میں اہم پیش رفت عمل میں آئی۔ ریاستی پالیسی ساز کمیٹی ایکٹ 2017، شریعت اپیلیٹ بینچ تشکیل ایکٹ  2017 جیسے نئے قوانین کا نفاذ، کورٹس اینڈ لاز کوڈ ایکٹ، سروس ٹربیونل ایکٹ، فیملی کورٹ ایکٹ، حدود و قصاص قوانین، اسلامی تعزیراتی  قوانین نفاذ ایکٹ اور دیگر اہم  قوانین میں بنیادی نوعیت کی ترامیم  کے ساتھ متعلقہ قوانین  کا نفاذ عمل میں آیا۔ اسی طرح عدالت ہذا کے فیصلہ کی روشنی میں دفعہ 123ضابطہ دیوانی کے تحت قواعد کمیٹی عدالت العالیہ میں تشکیل پائی۔ قائمقامان مقرر کرنےکے ضابطے پر عملدرآمد شروع کرایا گیا۔ یہ سارے وہ اقدامات ہیں جو نظام فراہمی انصاف میں بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ چیف جسٹس عدالت العظمیٰ کی ذمہ داریاںسنبھالتے ہی نظام فراہمی انصاف میں اصلاحات کے حوالے سے  53 نکات پر مشتمل تجاویز کا خاکہ   مرتب کر کے تمام بار ایسوسی ایشنز ہا  اور وائس چئیرمین بار کونسل کو ارسال کی گئیں۔ گو کہ بار ایسوسی ایشنز ہا کی طرف سے اس سلسلہ میں کوئی قابل قدر معاونت نہیں کی گئی تاہم توقع کی جاتی ہے کہ وکلاء برادری اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داریاں محسوس کرتے ہوئے اس سلسلہ میں اپنی سفارشات اور آراءسے مستفیض کریں گے۔

            ریاستی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کا پہلا اجلاس منعقد کیا گیا جس میں مجوزہ عدالتی اصلاحات سے متعلق تجاویز کو زیر غور لا کر حتمی منظوری آئندہ اجلاس تک مؤخر کی گئی اور انشاء اللہ سال 2017 ء میں ہی  ایک جامع عدالتی پالیسی لانے میں کامیاب ہوجائیں گے اس کے نتیجہ میں جو بھی انتظامی اقدامات عدالتی سطح پر اُٹھانے پڑے وہ اُٹھائے جائیں گے اور جن معاملات میں قانو ن سازی کی ضرورت ہوگی متعلقہ قانون ساز اداروں کی توجہ قانون سازی کے لئے دلائی جائے گی۔ ان مجوزہ تبدیلیوں  میں دیوانی مقدمات کے فیصلے کے لئے زیادہ سے زیادہ تین سال اور فریقین  کو فراہمی شہادت کے لئے مواقع و وقت کا تعین کرنا، سمندر پارشہریوں کے مقدمات، خواتین ، بچوں اور معذور افراد کے مقدمات کو ترجیحی بنیادوں پر فوری یکسو کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔

            انتہائی اہم قانون سازی کے اہداف حاصل کرنے کے لیے صدر ریاست ، وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر، قانون ساز اسمبلی اور دیگر ریاستی اداروں نے جو مثبت کردار ادا کیا ہے میں اس کو سراہتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ عوام کی خدمت اور نظام فراہمی انصاف  بہتر سے بہتر بنانے کے لیے تمام ادارے اسی طرح باہم تعاون اپنی اپنی قانونی اور آئینی حدود میں رہ کرآئندہ بھی جاری رکھیں۔  میں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ گذشتہ عدالتی سال کے دوران  آزاد جموں و کشمیر سپریم کورٹ میں قومی زبان اُردو میں عدالتی فیصلہ جات کا تحریر کیا جانا  بالخصوص مفادِ عامہ کے مقدمات میں قومی زبان میں فیصلہ جات کو نہ صرف ریاستی عوام بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی بے حد پذیرائی ملی۔ آزاد جموں و کشمیر یونیورسٹی مظفرآباد کے طلباء  و اساتذہ  نے اس حوالہ سے سپریم کورٹ میں آ کر اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ یونیورسٹی میں  بڑا پروگرام بھی منعقد کیا گیا ۔ برطانیہ (برمنگھم  کونسل) کے اشتراک سے ترقی اردو  بورڈ و اقبال اکیڈمی  نے  میرے نجی دورہ کے موقع پر  ایک بڑی تقریب منعقد کر کے ایوارڈ و اسناد سے نوازا۔ اردو زبان کے فروغ اور ترویج کے لئے عدالتی سطح پر کوششیں  جاری رہیں  گی اور توقع ہے کہ دیگر حکومتی ادارے بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کریں گے۔

مالیات:۔

       سپریم کورٹ میں مالی ڈسپلن اور کفایت شعاری کا اصول اپنایا گیا اور منظور شدہ بجٹ سے ڈیڑھ کروڑ روپے کی بچت کی گئی۔ اس میں وہ بچت بھی شامل ہے جو جج صاحبان کا قانونی استحقاق ہے  لیکن حد استحقاق نہیں بلکہ جو حقیقی مصرف ہوا وہی مراعات وصول کی گئیں اور آئندہ بھی ہماری کوشش ہوگی کہ قومی بجٹ کو قومی امانت سمجھ کر دیانت داری سے صرف کیاجائے اور دیگر تمام حکومتی اداروں سے بھی توقع ہے کہ وہ اسی طرح بچت کی پالیسی پر گامزن ہوں گے۔

تعمیراتی کام:۔

            حکومت کے تعاون سے زلزلہ متاثرہ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کی عمارات کی  مرمتی و تعمیر نو کی تکمیل ہوئی اور ماتحت عدلیہ کی ضلعی اور تحصیل سطح پر عمارات کی تکمیل کے حوالہ سے اہم پیش رفت ہوئی جس پر حکومت نے مثبت معاونت کی ۔ اُمید کی جاتی ہے کہ زیر تکمیل منصوبہ جات معینہ وقت میں مکمل ہو جائیں گے۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ نے نہ صرف اپنی بلکہ ماتحت عدلیہ کی مکانیت کے حوالے سے ہر ممکن کوشش کی ۔ میرپور میں عدالتی عمارات کی تکمیل میں قابل قدر پیش رفت ہوئی ہے۔ مظفرآباد میں ضلعی عدالتوں کے لیے جگہ مختص ہو کر منصوبہ بندی  کے مراحل پر کام تیزی سے جاری ہے ۔ توقع کی جاتی ہے کہ یہ منصوبہ رواں مالی سال میں عملی طور پر شروع ہو پائے گا۔  ڈرائیور و گارڈ رومز اور سپریم کورٹ عمارت کی چار دیواری  کی تعمیر کے منصوبہ پر کام جاری ہےجس کی لاگت 37.113  ملین روپے ہے۔ عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ کی عمارات  کے درمیان ایک کثیرالمقاصد ہال کی تعمیر کے منصوبہ پر عملی اقدامات جاری ہیں جو دونوں عدالتوں کی عمارات کو باہم منسلک کر دے گا۔ ۔  امید ہے کہ یہ منصوبہ مختصر  مدت کے اندر پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔

لائبریری و سپریم کورٹ ریکارڈرSCR

        اس سال سپریم کورٹ کی لائیبریری کے لئے  مبلغ چوبیس لاکھ،تینتیس ھزار، ایک صد چوراسی  روپے کی خطیر رقم خرچ کی گئی ہے  اور   کل 2476 کُتب خرید کی گئیں جن کو سپریم کورٹ کے  ہیڈکوارٹر مظفرآباد  اور دونوں سرکٹ  ہا کی لائبریریوں  میں حسب ضرورت تقسیم کیا گیا ہے۔ کتب کی تقسیم بذیل ہے:-

مرکزی لائیبریری مظفرآباد                    872 کتب

میرپور برانچ                                           506 کتب

راولاکوٹ برانچ                                     1098 کتب

:SCR           سپریم کورٹ ریکارڈر SCR آزاد جموں و کشمیر میں قانونی حوالہ جات کے لیے وکلاء اور عدالتی آفیسران کے پاس واحدقانونی رسالہ ہے۔ اس کا اجراء 1992 میں ہوا۔   اس قانونی رسالہ  میں آزاد جموں و کشمیرسپریم کورٹ کے اہم فیصلوں کے نظائر موجود ہوتے ہیں۔ ہر سال  اس قانونی  رسالہ کے  تین شمارے شایع کیے جا رہے ہیں اور سال کے اختتام پر ان کو یکسوکیا جا  کر ایک جامع کتاب کی شکل میں شایع کیا جاتا ہے آغاز میں اس رسالہ کا حجم تقریبا 400 صفحات تک محدود تھا لیکن مقدمات کی فیصلوں کی تعداد بڑھنے کی جہ سے اب یہ 2000 صفحات تک پہنچ چکا ہے۔ اس  رسالہ کو تجارتی بنیادوں پر نہیں بلکہ وکلاء کو سہولت فراہم کرنے کے لئے اصل لاگت سے بھی کم قیمت پر فراہم کیا جا رہا ہے۔ 2016  کا رسالہ مکمل ہو کر تمام عدالتوں اور وکلاء کے لئے  سپریم کورٹ لائیبریری میں میسر  ہے جبکہ   2017 کا پارٹ I بھی تکمیل ہو کر مارکیٹ میں آچکا ہے۔

نظام صلاۃ:۔

             اس سال کے دوران سپریم  کورٹ میں نظام صلاۃ قائم کیا گیا ۔ اللہ  تعالیٰ کا شکر ہے کہ سپریم کورٹ کے تمام ملازمین پابندی سے باجماعت نماز کی ادائیگی کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ناظرہ قرآن  کی کلاسز کا اجراء بھی کیا گیا ہے جس سے ناخواندہ  ملازمین استفادہ کررہے ہیں۔

فلاحی امور:۔

                    فلاحی امور کے حوالے سے سپریم کورٹ آزاد جموں و کشمیر کے معزز ججز صاحبان   نے انفرادی انفاق ادائیگی زکوۃ و صدقات کے علاوہ ایک فنڈ قائم کیا ہوا ہے جس سے مستحق طلباء اور ضرورتمندوں کو تقریبا دو لاکھ روپے کی امداد کی   گئی۔ آئندہ سال اس فنڈ سے  مستحقین کی امداد میں مزید اضافہ اوربہتری کی کوشش کی جائے گی۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی:۔

سپریم کورٹ آزاد جموں و کشمیر میں انفارمیشن ٹیکنالوجی  سے مستفیض ہونے کے لئے مظفرآباد ہیڈکوارٹر، میرپور  اور راولاکوٹ سرکٹ میں I.T کا شعبہ قائم کر دیا گیا ہے اور تینوں سرکٹ ہا  کے عدالتی و انتظامی امور کو  بھی  باہم منسلک کر دیا  گیا ہے۔تینوں سرکٹ ہا میں نیٹ ورک انفراسٹرکچر قائم کیا جا چکا ہے اورمرکزی ڈیٹا سینٹر بھی قائم کئے جا چکے ہیں۔  اس سلسلہ میں شعبہ I.T کی طرف سے  ورکشاپس اور اجلاس ہا منعقد کیا گئے تا کہ عدالتی و دفتری  امور  کی انجام دہی   کے طریقہ کار کو دور جدید  کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔  سپریم کورٹ کی ویب سائٹ بنا دی گئی ہے اور اس میں جملہ  اطلاعات تک رسائی کے لئے مزید بہتری  کی کوشش کی جا رہی ہے۔پرانے  فیصلہ شدہ مقدمات کو بتدریج سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر منتقل کرنے کا عمل جاری ہے اور 2016 تا حال فیصلہ ہونے والے متعدد مقدمات کو ویب سائٹ پر منتقل کر دیا گیا ہے۔  پرانے مقدمات کو بھی ویب سائٹ پر منتقل کرنے کا عمل جاری ہے اور  2016 سے 2013 تک کے 2300 فیصلہ جات کو تا حال scan کیا جا چکا ہے اور  ان کوبالترتیب  ویب سائٹ پر منتقل کر دیا جائے گا۔ مقدمات کی روزانہ سماعت کی فہرست (daily cause list)بروقت وکلاء تک بذریعہ برقی پیغام رسانی بر ٹیلیفون فراہم کی جا رہی ہے ۔ ۔ اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر تاز ترین فیصلہ جات اور دیگر اطلاعات بھی فراہم کی جا رہی ہیں جس سے نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون مُلک مقیم شہری بھی مستفیض ہورہے ہیں-

قواعد   کارسپریم کورٹ  مجریہ 1978 و قواعد ملازمین سپریم کورٹ 1994 کی تدوین و ترامیم:

                     اس سال آزاد جموں و کشمیر سپریم کورٹ رولزمجریہ  1978 میں عرصہ دراز  سے زیر التواء  مطلوبہ ترامیم  کا معاملہ بھی یکسو  ہو پایا اور  اہم بنیادی  ترامیم عمل میں لائی گئیں۔  جبکہ سپریم کورٹ ملازمین  کے سروس قواعد  1994  تبدیل کر کے جدید قواعد 2016 میں   نافذالعمل ہوئے۔  سپریم کورٹ کے انتظامی افیسران کے درمیان تقسیم کار بھی طے کی گئی  اور ملازمین کے تحت قواعد ترقی اور تعیناتی کے امور بھی یکسو کئے گئے۔

گرمائی تعطیلات  کی مدت میں کمی:

                      طویل گرمائی تعطیلات  کے دورانیہ میں بھی دو ہفتہ  کی کمی کی گئی اور تعطیلات  کے دوران بھی عملی طور پر عدالت اہم اور فوری نوعیت کے مقدمات کی سماعت کے سلسلہ میں کھلی رہی۔اس دوران  عوامی مفاد اور اہم نوعیت  کی قومی تقاضوں  کی حامل اپیلوں کی فوری سماعت  بھی کرنا پڑی تو جج صاحبان نے تعطیلات منانے کے بجائے عدالتی فرائض سر انجام دیئے اور مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے اہم فیصلہ جات صادر کئے ۔

جوڈیشل اکیڈمی:۔

            نظام فراہمی انصاف کے حوالے سے آزاد جموں و کشمیر میں جوڈیشل اکیڈمی کا قیام ناگزیر ہے۔ اس سلسلہ میں حکومت آزاد کشمیر سے تبادلہ خیال ہوا ہے اور مستقبل قریب میں ایک جوڈیشل اکیڈمی کا قیام عمل میں لانے پر اتفاق ہوا ہے۔  تاہم فی الحال کشمیر انسٹیوٹ آف منیجمنٹ سائنسز میں عدالتی آفیسران کے لیے کورسز اور  تربیت وغیرہ کا اہتمام کیا جانا زیر غور ہے اور آئندہ چند ماہ میں اس پر عملدرآمد ہونا متوقع ہے۔

            میں اس بات  کا اظہار ضروری سمجھتا ہوں کہ تمام ادارے اور حکومتی نظام لوگوں کی بہتری اور فلاح کے لیے ہیں۔ آزاد جموں و کشمیر عدلیہ نے اس مقصد کے حصول کے لیے دیگر اداروں سے تعاون  کرتے ہوئے شعوری کوشش کی ہے کہ عدلیہ کی وجہ سے عوامی مفاد کے منصوبہ جات یا معاملات میں رکاوٹ و تعطل پیدا نہ ہو اور آئندہ بھی اس کوشش کو جاری رکھا جائے گا۔ ماسوائے کچھ اہم قابل توجہ پہلوؤں کے آزاد کشمیر کے تمام اداروں نے نظام انصاف کی بہتری کے لیے جو  تعاون و کاوشیں کی ہیں میں اُن کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔

حسن کارکردگی ایوارڈ:

                      ملازمین عدلیہ کی درجہ بندی کے اعتبار سے اعلیٰ کارکردگی، ایمانداری، دینی و اخلاقی اقدار کی پاسداری جیسی خدمات کی حوصلہ افزائی  کے لئے آئندہ سال خصوصی انعام و ایوارڈ کی سکیم بھی زیر غور ہے۔

            سامعین محترم !فراہمی انصاف کے حوالے سے سرکاری اداروں کے علاوہ غیر سرکاری اداروں جن میں فلاحی تنظیمیں اور میڈیا جیسے اہم ادارے شامل ہیں کا کردار بھی انتہائی اہم اور ناگزیر ہے۔ میڈیا نے بھی مجموعی طور پر مثبت کردار ادا کیا تاہم بسا اوقات تصدیق کے بغیر خبریں شائع کی جاتی ہیں جو کہ عدالتی فیصلہ یا قانون  کی منشاء کے مطابق نہیں ہوتیں ۔ اس حوالے سے گزارش کروں گا کہ خبر کی اشاعت سے پہلے اس کی صداقت اور عدالتی فیصلہ کی منشاء کے بارے میں معلومات حاصل  کر لی جائیں تو صحیح خبر کی اشاعت ممکن ہو سکے گی۔ اور عوام کی بہتر رہنمائی بھی کی جا سکے گی۔

            کسی بھی مہذب معاشرے کا تصور  مؤثر نظام فراہمی انصاف کے بغیر ناممکن ہے۔ انسانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ریاستوں اور معاشروں کی مضبوطی ، استحکام، امن، سلامتی، ترقی اور فلاح کا دارومدار ایک مؤثر، مضبوط اور فوری فراہمی انصاف کے نظام سے مشروط ہے۔ جن معاشروں اور ریاستوں میں نظام فراہمی انصاف کو نظر انداز کیا جاتا ہے وہاں انارکی اور بد امنی پیدا ہوتی ہے جو ریاستوں اور معاشروں کی کمزوری اور انتشار کا سبب بنتی ہے۔جمہوری اقدار کا تحفظ اور معاشی ترقی کا تصور  بھی ایک مؤثر نظام فراہمی انصاف سے منسلک ہے۔ اس لئے تمام اداروں  کی قومی ذمہ داری ہے کہ وہ ریاست کے اندر جدید تقاضوں کے مطابق مؤثر نظام فراہمی انصاف کے لئے کردار ادا کریں تاہم عدلیہ سے منسلک جج ، قاضی صاحبان پر سب سےزیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اس لئے ہمیں ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہی کے لئے تیار رہتے ہوئے  پوری دیانت، محنت، لگن و ایمانداری سے تمام صلاحیتیں بروئے کار لانی چاہیئں۔

            ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہم اپنی تمام تر صلاحیتیں بروقت ، پوری دیانت اور جانفشانی کے ساتھ عام آدمی کو فراہمی انصاف کے لئے بروئے کار لائیں۔ اس بات کا ادراک سب کو ہونا چاہیے کہ معاشرے کے اندر 100 فیصد فراہمی انصاف کی ذمہ داری عدالتوں پر نہیں بلکہ مبنی بر انصاف معاشرے کے قیام کے لئے تمام اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ عدالتوں میں محدود تعداد میں معاملات آتے ہیں جبکہ ان سے کئی گنا زیادہ معاملات دیگر انتظامی اداروں کے پاس زیر کار رہتے ہیں۔ عدالتیں ریاستی شہریوں کے 100 فیصد معاملات میں ذمہ داریاں پوری نہیں کر سکتیں تاہم عدالتوں کا سب سے اہم مقصد قانون کا نفاذ اور قانون کی بالادستی کے تصور کو اجاگر کرنا ہے۔ اس سلسلہ میں آزادجموں و کشمیر سپریم کورٹ نے اقدامات اُٹھائے اور غیر معمولی اختیارات استعمال کرتے ہوئے قواعد کو معطل کر کے فوری فیصلے صادر کیے اور  ماتحت عدالتوںکو معینہ وقت کے اندر فیصلہ کرنے کی ہدایات جاری کیں ۔  اس طرح خصوصی طبقات جن میں خواتین معذور افراد ،بچوں سے متعلق معاملات اور سمندر پار مقیم افراد  کے معاملات  شامل ہیں پر خصوصی توجہ دے کر فوری فیصلہ کرنے کی پالیسی اپنائی گئی۔

                        فوری اور سستے انصاف کا حصول ہر دور اور ہر معاشرے کا تقاضا رہا ہے۔ ان مقاصد کے حصول کے لئے ایک آزاد، فعال اور متحرک عدلیہ کا وجود اور اس کے لئے مطلوبہ وسائل کی فراہمی ناگذیر ہے۔  آزاد اور فعال عدلیہ کی منزل کو حاصل کرنے کے لئے جہاں پر دیگر  اداروں کی مداخلت اور خلل  کے بجائے تعاون اور  مطلوبہ وسائل کی فراہمی ضروری ہے وہاں ہی  سب سے اہم ذمہ داری بذات خود جج صاحبان اور عدلیہ پر عائد ہوتی ہے۔ بلا شبہ عدلیہ کے فراہمی انصاف  کی انجام دہی کےسلسلہ  میں کسی کو مداخلت  کی اجازت نہیں ہونی چاہئے تا ہم اس کے ساتھ ساتھ عدالتی مناصب پر فائز افراد کو بھی عدلیہ کی آزادی قائم رکھنے کے لئے نہ صرف اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے  بلا خوف وحمایت، رغبت و عناد کام کرنا ہے بلکہ مقدمات کے فیصلوں کی تعداد کے اعتبار  سے اپنی کارکردگی کو بڑھانا ہو گا۔خود احتسابی عدلیہ کا ایک امتیازی وصف ہے۔ عدلیہ کی خود مختاری کے اعتبار سے شایدکوئی ادارہ ہمارا نگران نہ ہو مگر ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہیں۔ اس غریب ریاست کے قومی خزانے سے ہمیں بڑی مراعات حاصل ہیں اسی مناسبت سے ہمارے مقدمات کے فیصلوں  کی تعداد بھی ہونی چاہئے۔ لیکن فیصلوں کی تعداد ہی نہیں بلکہ معیار کو بھی نظر رکھنا ہے۔ محض اعدادو شمار میں اضافہ کی غرض سے اگر اس انداز میں مقدمات یکسو ہوں کہ ان میں سے بڑی تعداد ریمانڈ ہو جائیں یا ما سوائے کسی دقیق قانونی تشریح عام فہم قانونی اصول سے مطابقت نہ رکھتی ہو یا عدم توجہ کی وجہ سے  فیصلہ ریکارڈ اور واقعات سے متصادم ہو تو یہ بھی نا انصافی کے مترادف ہے۔ اگر اس اعتبار سے قوم جاننا چاہے تو یہ ان کا حق ہے اور یہ قانون کا منشاء بھی ہے۔ اس حوالے سے ریاستی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی کے تحت آئندہ سال ساری عدلیہ کی کارکردگی کی جامع رپورٹ قوم کے سامنے لانے کی کوشش کی جائے گی۔

            اگر معاشرے کے اندر عدالتیں قانون کے عملی نفاذ اور بالادستی کے تصور کو اجاگر کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو نظام انصاف کے قیام کا مقصد  کسی حد تک حاصل ہوجاتا ہے اور عوامی اعتماد اداروں اور ریاست پر بڑھ جاتا ہے۔ اس حوالہ سے گو کہ کسی حد تک  بیداری احساس کے ساتھ تبدیلی رونما ہو رہی ہے مگر ابھی منزل بہت دور ہے اور مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔  بلا تخصیص  قانون کا مؤثر اطلاق برائے فوری انصاف سب کے لئے ھمارا نصب العین ہے

                        میں سب شرکاء کا اس تقریب میں شمولیت پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اس عہد کے ساتھ نئے سال کا آغاز کرتے ہیں کہ ہم آئندہ بہتر کارکردگی کے ساتھ دوبارہ نئے عدالتی سال کی تقریب منعقد کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی مدد ،نصرت  اور رہنمائی فرمائے۔

                                                 آمین

Posted by
Categories: News

Comments are closed.