Picture Gallery 2023

Picture Gallery 2023

میرپور24 اکتوبر2023
آزاد جموں و کشمیر کے76 ویں یوم تاسیس کے موقع پرسپریم کورٹ رجسٹری برانچ میرپورکے سبزہ زار پرپرچم کشائی کی پروقار تقریب منعقد ہوئی۔ چیف جسٹس آزادجموں وکشمیر جسٹس راجہ سعید اکرم خان نے پرچم کشائی کی۔ اس موقع پر پولیس کے چاک و چوبند دستے نے سلامی دی اور گارڈ آف آنر پیش کیا۔پرچم کشائی کی تقریب میں سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس خواجہ محمد نسیم،سپریم کورٹ کے جج جسٹس رضا علی خان،چیف الیکشن کمشنر عبدالرشید سلہریا،کسٹوڈین چوہدری خالد یوسف،ایڈووکیٹ جنرل خواجہ مقبول وار،سابق چیف جسٹس اعظم خان،سابق جج ہائی کورٹ چوہدری جہانداد،سابق جسٹس چوہدری محمدمشتاق،سابق چیئرمین احتساب بیورو راجہ غضنفر علی خان، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راجہ اطہر خان،کمشنرمیرپورڈویژن چوہدری شوکت علی،ڈی آئی جی چوہدری سجاد حسین، ڈپٹی کمشنریاسر ریاض،ایس ایس پی راجہ عرفان سلیم،سابق جسٹس مظہر کلیم،وائس چیئرمین بار کونسل راجہ ندیم خان،صدر سپریم کورٹ بار راجہ سجاد خان، مرکزی چیئرمین ضلع زکواۃ چوہدری محمد صدیق ایڈووکیٹ، صدرڈسٹرکٹ بارکامران طارق ایڈووکیٹ،سابق وائس چیئرمین راجہ خالد محمود،بانی وائس چیئرمین چوہدری منصف داد،سابق صدر سپریم کورٹ بار سید نشاط کاظمی کے علاوہ سینئر وکلاء اور سپریم کورٹ رجسٹری برانچ کے ملازمین کی بڑی تعدادموجود تھی۔
چیف جسٹس آزادکشمیر راجہ سعید اکرم خان نے کہاکہ آزادی بڑی نعمت ہے آج سے 76سال قبل ہمارے آباؤ اجداد نے ڈوگرا حکومت کے خلاف بغاوت کرکے ریاست جموں وکشمیر کا ایک حصہ آزاد کروایا تھا۔آزادی کے لیے شہداء نے اپنے لہو کی جو قربانیاں دی ہیں اسی وجہ سے آج ہم آزاد خطہ میں آزادی سے سانس لے رہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ 19جولائی 1947کو قرارداد الحاق پاکستان منظور کرکے ریاست جموں وکشمیر کے مسلمانوں نے اپنا مستقبل پاکستان سے وابستہ کیا تھا آج بھی مقبوضہ ریاست جموں وکشمیر میں بھارتی بربریت اور جبر کے خلاف کشمیری سراپا احتجا ج ہیں اور اپنی منزل پاکستان کے حصول کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔وہ دن زیادہ دور نہیں جب مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جبر کو برداشت کرنے والے کشمیری ہمارے ساتھ مل کر آزادی کا سانس لیں گے اور ہم سبحقیقیمعنوں میں آزادی منائیں گے۔

مظفرآباد. 2اکتوبر2023
سپریم کورٹ آزاد جموں و کشمیر میں 2 اکتوبر کو منعقد ہونے والی نئے عدالتی سال کی تقریب سے چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر کا خطاب۔
نئے عدالتی سال 2023-24 کی تقریب سے چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر جسٹس راجہ سعید اکرم خان کا خطاب۔نئے عدالتی سال کی تقریب میں جسٹس خواجہ محمد نسیم سینئر جج سپریم کورٹ، جسٹس رضا علی خان جج سپریم کورٹ، خواجہ محمد مقبول وار ایڈووکیٹ جنرل، راجہ طارق جاویدچئیرمینسروس ٹربیونل، شیخ راشد مجیدچئیرمین اپیلیٹ ٹربیونل ان لینڈ ریونیو، راجہ راشد نسیم چئیرمین انوائرنمنٹل ٹربیونل، خالد یوسف چوہدریکسٹوڈین متروکہ املاک،، راجہ محمد ندیم ایڈووکیٹ وائس چئیرمین بار کونسل، زبیر راجہ ایڈووکیٹ صدر سپریم کورٹ بار، حامد خان ایڈووکیٹ صدر ھائی کورٹ بار، راجہ آفتاب احمد خان ایڈووکیٹ صدرسنٹرل بار کامران طارق ایڈووکیٹ صدر ڈسٹرکٹ بار میرپور، سینئر وکلائکی کثیر تعداد کے علاوہ محترمہ نبیلہ ایوب ایڈووکیٹ رکن قانون ساز اسمبلی، سیکرٹری محکمہ اطلاعات اور ایڈیشنل سیکرٹری محکمہ قانون نے شرکت کی۔ افتتاحی خطاب میں ایڈووکیٹ جنرل آزاد جموں و کشمیر نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور ججز صاحبان کی جانب سے مفاد عامہ کے مقدمہ میں احکامات اور ہدایات صادر کرنے پر خراج تحسین پیش کیا۔ ایڈووکیٹ جنرل آزاد جموں و کشمیر نے تمام وکلاء اور شرکائے تقریب کو خوش آمدید کہتے ہوئے نئے جوش اور ولولے کے ساتھ فراہمی انصاف کے لیئے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لانے کی تلقین کی۔ انھوں نے کہا کہ محدود وسائل کے با وجود ہماری عدلیہ نے تاریخ ساز فیصلے صاد رکئے ہیں جس سے عوام میں اطیمنان کی کیفیت پائی جا رہی ہے۔۔ سپریم کورٹ بار کے صادرزبیر راجہ ایڈووکیٹ نے بھی سپریم کورٹ کے اہم فیصلوں کی نشاندہی کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلوں کو سراہا۔ وائس چئیرمین بار کونسل راجہ محمد ندیم نے اپنے خطاب میں کہا کہ آزاد کشمیر کا عدالتی نظام انتہائی اعلیٰ ہے۔ سپریم کورٹ میں پرانے مقدمات پنڈنگ نھیں ہیں جو ہم سب کے لئے قابل فخر ہے۔ انھوں نے بلڈنگ کمیٹی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ نئی تعمیر ہونے والی عدالتی عمارتوں میں عوام کے لئے واش روم اور بیٹھنے کے سہولیات کے ساتھ ساتھ وکلا کے لئے کیفے ٹیریا اور بیٹھنے کی جگہ کو لازمی طور پر زیر غور لایا جائے۔ انھوں نے کہا کہ بار کونسل نے ہمیشہ سے آئین اور قانون کی حکمرانی کے لئے جدوجہد کی ہے۔۔سپریم کورٹ کے فیصلے قابل ستائش ہیں۔ آخر میں چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر جناب جسٹس راجہ سعید اکرم خان نے خطاب فرمایا جس کی جھلکیاں بذیل ہیں:-
• 29ستمبر 2023 کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ عدالتی میں 3214 نئے مقدمات دائر ہوئے ھیں جن میں سے 2933 کا فیصلہ ہو چکا ہے۔
• دوران عدالتی سال نئے دائر ہونے والے مقدمات اور فیصلہ ہونے والے مقدمات کی تعداد کے قریب تر ہے۔
• مقدمات کی یکسوئی اور فوری فراہمی انصاف ٹیم ورک کا نتیجہ ہے اور اس کا سہرا معزز ججز صاحبان کے سر ہے جنھوں نے اپنی اعلیٰ بصیرت، فہم و فراست اور دانش سے فراہمی انصاف کے لئے اپنی اعلیٰ ترین صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئیمیرے ہمراہ ریکارڈ فیصلے کئے۔
• سپریم کورٹ آزاد جموں و کشمیر میں تعطیلات کے دوران بھی معزز ججز صاحبان نے مقدمات کی سماعت جاری رکھی جس پر میں ان کا دلی طور پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔۔
• اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل و کرم سے سال بھر میں عدالتی عملہ کے حوالہ سے کسی بھی قسم کی بد معاملگی، نااہلی، بددیانتی یا عام لوگوں سے کسی قسم کی بد اخلاقی کی کوئی شکایت نہیں پائی گئی ہے۔
• سپریم کورٹ کے عملہ کے کردار کے حوالہ سے وکلاء اور عوام الناس کا اظہار اطیمنان عملہ کی اعلیٰ اخلاقی اقدار کا واضح ثبوت ہے۔ توقع رکھتا ہوں کہ وہ آئندہ بھی اسی منفرد انداز و کردارکو نہ صرف برقرار رکھیں گیبلکہ اس میں مزید بہتری لا کر باقی تمام ریاستی اداروں کے لئے قابل تقلید مثال قائم کریں گے۔۔
• کسی بھی ریاست میں تمام انتظامی مشینری صرف عوامی خدمت کے لئے تعینات ہوتی ہے۔ عدلیہ ہو یا انتظامیہ سب کا اولین فرض اور ذمہ داری عوام کے مسائل کا حل اور ان کی دہلیز تک انصاف بہم پہنچانا اورایک فلاحی ریاست اور معاشرہ کا قیام ہے۔ انصاف پر مبنی معاشرہ کے قیام کے لیئے تمام ریاستی اداروں اور افراد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ جمہوری اقدار کا تقاضا ہے کہ ریاست میں بلا تخصیص فراہمی انصاف، معاشی مساوات، صحت، تعلیم اور روزگار کے یکساں مواقع فراہم کئے جائیں۔ریاستی شہریوں کے بینادی حقوق کا تحفظ اور ان کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کا تدارک کرنے کے لیے فیصلے اور ہدایات صادر کرنا عدلیہ کی آئینی ذمہ داری ہے اور سرکاری عاملین اور انتظامیہ کا کام ان فیصلوں پر عمل درآمد کرناہوتا ہے لیکن شومئی قسمت فیصلوں پر عمل درآمد میں لیت و لعل اور تاخیری حربوں سے کام لیا جاتا ہے جس سے فراہمی انصاف کا بنیادی مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ ھونا تو یہ چاہیے کہ سرکاری محکموں اور دفاتر سے عوام کو فوری اور مؤثر انصاف کی فراہمی یقینی ہو۔ جائیداد کی ملکیت کا معاملہ ہو یا پھر ملازمت کا حصول، تنخواہ کا معاملہ ہو یا تبادلہ اور ترقی، کوئی معاہدہ ھو یا کاروباری لین یا کوئی بھی دیگر مسئلہ، تمام معاملات اور مسائل کے حل کے لئے آئین کے تحت ریاستی ادارے قائم ہیں اور اگر متعلقہ ادارے تحت قانون، سفارش، رشوت اور دباؤ سے آزاد ھوکر قانون اور آئین کے مطابق شہریوں کی داد رسی کریں تو ایسی صورت میں انھیں عدالتوں سے رجوع کرنے کی نوبت ہی نہ آئے۔ ریاستی اداروں کی جانب سے نا انصافی کے خلاف شہریوں کو عدالتوں سے رجوع کرنا پڑتا ہے جس سے ان کا کثیر سرمایہ خرچ ھونے کے ساتھ ساتھ ان کا قیمتی وقت بھی ضائع ہو جاتا ہے۔۔آئین کے تحت سپریم کورٹ کے احکامات تمام ریاستی اداروں پر لاگو ہوتے ہیں۔ کوئی بھی شخص یا ادارہ قانون سے بالا تر نھیں ہے خواہ وہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو۔ اگر ریاستی اداروں کی جانب سے عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نھیں کیا جاتا تو ایسی صورت میں آئین میں عدلیہ کی آزادی کے تصور کی نفی ہوتی ہے۔ شہری حقوق اور آزادیوں کے تحفظ اور قانون کی حکمرانی کے لئے ایک آزاد اور خود مختار عدلیہ کا وجود لازمی تقاضا ہے۔ مجھے توقع ہے کہ تمام ریاستی ادارے عدالتی فیصلوں اور ہدایات پر من و عن عمل درآمدکو یقینی بناتے ہوئے آئینی تقاضے پورے کریں گے علاوہ ازیں تمام ریاستی اداروں میں اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میرٹ پر
تقرریاں اور تعیناتیاں عمل میں لائی جائیں گی۔
• عدالت ہذا نے مقدمات کو یکسو کرتے ہوئے جہاں پر حالات و واقعات اورقانونی تقاضوں کے مطابق فراہمی نظام عدل میں بہتری اور تیزی لانے کے لیے کسی قانون میں تبدیلی یا ترمیم کی ضرورت محسوس کی یا کہیں قانون کی خلاف ورزی اور سینہ زوری کی بناء پر عدالتی فیصلوں اور احکامات کو نظر انداز کرنے کا تاثر دیکھا تو عدالت نے ان پہلوؤں کے حوالے سے بھی اپنا کردار ادا کیا اور متعلقہ اداروں اور افراد کو ہدایات جاری کرتے ہوئے تعمیلی رپورٹ طلب کی جن کی تفصیل طوالت کا باعث ہو گی تا ہم کچھ مقدمات کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں۔ گزشتہ عدالتی سال میں اہلیان ہجیرہ کی جانب سے دائر مقدمہ میں آزاد جموں و کشمیر میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عمل درآمد کرواتے ہوئے تیس سال سے زائد عرصہ کے بعد آزاد جموں و کشمیر میں آزادانہ، منصفانہ اور پر امن بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوا اس طرح بنیادی حکومتوں میں عوامی نمائندگی قائم ہونے پر عوام کا ریاستی اداروں پر اعتماد بحال ہو اجس سے مستقبل قریب میں ایک عام شہری کو بھی ریاستی معاملات میں فیصلہ سازی کا موقع میسر آئے گا اور تعمیر و ترقی میں ان کی رائے کا عمل دخل ممکن ہو سکے گا۔۔ حکومت کو چاھئے کہ بلدیاتی نمائندوں کو دیہی ترقی اور تعمیر کے لئے اختیار دینے کے لئے قانون سازی کریں اور ان کو لازمی اختیارات دیئے جائیں تاکہ عوامی نمائندے عوام کی بنیادی ضروریات اور منصوبہ جات کے لئے عملہ طور پر کام کر سکیں۔۔
• شاہد زمان کے مقدمہ میں سپریم کورٹ نے آزاد جموں و کشمیر میں ناقص اشیائے خوردنی کے گھناؤنے کاروبار کو روکنے کے لئے آئینی کردار ادا کرتے ہوئے پوری ریاست جموں و کشمیر میں متعلقہ ریاستی اداروں کی مدد سے ملاوٹ شدہ دودھ اور دیگر تمام اشیائے خوردونوش کی چیکنگ کے لئے متعدد بار احکامات دیئے اور ہدایات جاری کیں جن پر عمل درآمد کرتے ہوئے بلدیاتی اداروں اور انتظامیہ کی جانب سے بازاروں اور مارکیٹوں میں اشیائے خوردونوش کی چیکنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ شہر میں ناقص اور مضر صحت دودھ سپلائی کرنے والے متعدد مراکز کو سپریم کورٹ کے حکم پر متعلقہ اداروں نے سیل کر دیا ہے جبکہ میونسپل کارپوریشن اور محکمہ امور حیوانات کے زیر انتظام دودھ ٹیسٹ کرنے کی لیبارٹریاں بھی قائم ہو چکی ہیں۔ دارالحکومت میں داخل ہونے والی ملاوٹ شدہ مضر صحت دودھ کی بڑی مقدار بند ہو چکی ہے جبکہ دیگر تمام اشیائے خوردونوش کی کوالٹی چیک کرنے کے لئے ایک مکمل نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے فوڈ اتھارٹی کا قیام وقت کی ضرورت ہے۔ میری خواہش ہے کہ آزاد جموں و کشمیر میں قائم ہونے والی فوڈ اتھارٹی کے لئے پنجاب میں قائم فوڈ اتھارٹی کے خدوخال کو سامنے رکھتے ہوئے بالکل اسی طرح کا نظام وضع کیا جائے۔ سپریم کورٹ آزا دجموں و کشمیر نے اتفاق سٹون کریشرز کے مقدمہ میں نثارہ عباسی رکن قانون ساز اسمبلی کی درخواست پر کاررروائی کرتے ہوئے کامسر کے مقام پر چلنے والے کریش پلانٹوں سے پھیلنے والی آلودگی اور قریبی گاؤں دھنی مائی صاحبہ کے رہایشیوں کو لاحق سانس اور پھیپھڑوں کی بیماریوں کے پیش نظر متعلقہ ریاستی اداروں سے رپورٹ طلب کی۔ محکمہ ماحولیات کے ڈائریکٹر کی جانب سے پیش کردہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کے مطابق کامسر کے مقام پر چلنے والے تمام کریش پلانٹ ماحولیاتی آلودگی کا باعث بن رہے تھے جس سے ایک طرف قریبی گاؤں دھنی ماہی صاحبہ میں مقیم شہری سانس اور پھیپھڑوں کی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے تھے جب کہ دوسری جانب شاہراہ نیلم کے ارد گرد ان فیکٹریوں کی وجہ سے دارالحکومت کے بالکل نزدیک واقع اس علاقہ میں لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے سیاحوں کی گزرگاہ بری طرح متاثر ہو رہی تھی اور ٹریفک کے حادثات روز کا معمول بن چکے تھے۔ بہت سے کریش پلانٹ بلا لائسنس اور محکمہ ماحولیات کے این او سی کے بغیر کام کر رہے تھے جو ماحولیاتی آلودگی کے ساتھ ساتھ زمین کے کٹاؤ کا باعث بن رہے تھے اور کچھ کریش پلانٹ سرکاری اراضیات اور تاریخی اور قومی اہمیت کے مقامات کو نقصان پہنچا رہے تھے۔ رپورٹ کے مطابق آزاد جموں و کشمیر میں کریش سٹون پلانٹوں کی کل آمدن چھ ارب روپے کے لگ بھگ سالانہ ہے جس پر سالانہ ریونیو پچاس کروڑ روپے کے قریب بنتا تھا لیکن خزانہ سرکار میں صرف گیارہ لاکھ روپے جمع ہو رھے تھے۔۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے ہوشربا انکشافات سامنے آئے جس سے ریاستی اداروں کی کارکردگی پر بہت بڑے سوال پیدا ہوتے ہیں۔سپریم کورٹ نے متعلقہ سرکاری محکموں کو ہدایت کی کہ صرف وہ کریش پلانٹ چلائے جائیں جو قانونی تقاضے پورے کر رہے ہوں اور اس سلسلہ میں ماہانہ پراگریس رپورٹ بھی ارسال کی جائے۔ محکمہ کی سفارشات پرصرف ایسے 54 کریش پلانٹ جو قانونی تقاضے پورے کر رہے تھے ان کو کام کی اجازت دی گئی۔ محکمہ صنعت کی جانب سے سپریم کورٹ میں پیش کردہ ماہانہ رپورٹ ہا کے مطابق گذسشتہ دس ماہ کے عرصہ میں دس کروڑ روپے کے لگ بھگ ٹیکس خزانہ سرکار میں جمع ہو چکا ہے۔۔ مقدمہ عنوانی محمد عظیم دت بنام راجہ خادم حسین وغیرہ پر عمل درآمد اور توہین عدالت کی درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے میرپور اور آزاد جموں و کشمیر کے دیگر شہروں میں ناجائز تجاوزات کے خاتمہ سے متعلق احکامات جاری کئے ھیں اور میرپور میں ماسٹر پلان کی خلاف ورزی اور شہر میں گرین بیلٹ اور پارکوں کے لئے مختص کردہ رقبہ جات کوغیر قانونی قابضین سے واگزار کروانے کا حکم دے رکھا ہے۔پارکوں اور گرین بیلٹ کی واگزاری کے ساتھ ساتھ غیر قانونی قبضہ جات کے خاتمے کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلوں پر من و عن عمل درآمد انصاف کا تقاضا ہے۔ یہ مقدمہ زیر سماعت ہے اور سپریم کورٹ نے غیر قانونی الاٹمنٹ کرنے والے سرکاری اہلکاران کے خلاف کارروائی کا حکم دیا ھے۔ میرپور میں ماسٹر پلان کی خلاف ورزی، تجاوزات اور گرین بیلٹ پر قبضہ کے غیر قانونی دھندے میں ترقیاتی ادارہ میرپور کے اہلکاران کا بنیادی کردار ہے اور ایسے بد عنوان سرکاری ملازمین کے خلاف سرجری کی ضرورت ہے۔ الیاس جنڈالوی وغیرہ بنام پرل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی وغیرہ میں سپریم کورٹ نے بنجوسہ میں جنگلات کی اربون روپے کی اراضی واگزار کرنے کا حکم دیا۔ اس رقبہ کو پرل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی نے ہاؤسنگ اتھارٹی کے لئے مختص کر رکھا تھا اور کچھ لوگوں کو اس رقبہ میں سے پلاٹ الاٹ ہو چکے تھے۔ ڈپٹی کمشنر پونچھ نے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عملدرآمد کرتے ہوئے رپورٹ پیش کی ھے جس کے مطابق ایک لاکھ چار ہزار چار سو سینتالیس کنال رقبہ کا اندراج محکمہ جنگلات کے نام کر دیا گیا ہے اس طرح سرکار کے اربوں روپے کے جنگلات کا تحفظ ہوا۔
• چیف جسٹس ہائی کورٹ آزاد جموں و کشمیر کیماتحت عدلیہ کی کارگزاری میں پہلے سے زیادہ بہتری آئی ہے اور بلا شبہ اس کا سہرا ان ھی کے سر ہے۔ ھائی کورٹ کے چیف جسٹس اور ججز صاحبان نے بھی گرمائی تعطیلات کے دوران مظفر آباد، میرپور، راولاکوٹ اور کوٹلی میں مقدمات کی سماعت جاری رکھی جو لائق تحسین ہے۔۔ الحمدللہ آزاد جموں و کشمیر میں خصوصی اختیار سماعت کے تمام ٹربیونل مکمل
الحمدللہ آزاد جموں و کشمیر میں خصوصی اختیار سماعت کے تمام ٹربیونل مکمل ہو چکے ہیں اور کام کر رہے ہیں اور اس وقت آزاد جموں و کشمیر میں نظام عدل سے وابستہ کوئی بھی عدالت یا خصوصی اختیار رکھنے والا ٹربیونل نان فنکشنل نھیں ہے۔
• گذشتہ عدالتی سال میں جوڈیشل کانفرنس منعقد کرنے پر میں چیف جسٹس صاحب ھائی کورٹ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انھوں نے نظام فراہمی انصاف میں تاخیر اور اس کے تدارک کے لئے عملی اقدامات پر پوری عدلیہ کو سر جوڑ کر بیٹھنے کا موقع فراہم کیا۔ میں ان کا شکریہ بھی ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے مجھے جوڈیشل کانفرنس میں بطور مہمان خصوصی دعوت دی اور خطاب کا موقع دیا۔۔
• اکثر مقدمات میں سماعت کے دوران یہ بھی مشاہدہ میں آیا ہے کہ ماتحت عدلیہ میں ترقیاتی منصوبہ جات، ملازمین کے متعلق امور اور پبلک سروس کمیشن اور دیگر بہت سے حساس معاملات میں حکمِ امتناعی جاری کر کے برس ہا برس تک معاملات التواء میں پڑ جاتے ہیں اور غیر ضروری تاریخ گردانی کی جاتی ہے جس سے بہت دشواریاں پیدا ہو جاتی ہیں، ترقیاتی بجٹ ضائع ہو جاتا ہے، سرکاری ملازمت کے حصول کے لئے کوشاں افراد حدِ عمر تجاوز کر جاتے ہیں اور کئی اداروں میں کام بھی تعطل کا شکار ہوجاتا ہے جبکہ قانون میں حکم امتناعی کے معاملہ کو یکسو کرنے کے لیے وقت متعین ہے۔ تمام عدالتوں کو چاہیئے کہ متعلقہ قانون میں مقدمہ کے فیصلہ کے لئے مقرر شدہ مدت کے اندر فیصلہ کیا جائے تاکہ قانون کے تقاضے پورے ہو سکیں۔۔ بیرون ملک مقیم شہریوں، زیر تعلیم طلباء، مالیات، قومی اہمیت کے تعمیراتی منصوبوں اور معذور افراد سے متعلق مقدمات میں ترجیحی بنیادوں پر فیصلے صادر کئے جائیں۔ مقدمات کی سماعت کے دوران بلاوجہ تاریخ گردانی سے گریز کیا جائے اور ناگزیر صورت میں تاریخ دینے کے لئے قانونی جواز کا درج کیا جانا ضروری ہے۔ اسی طرح گواہان حاضر آمدہ کے بیانات قلمبند نہ ہونے کی وجہ سے بھی نہ صرف نظام فراہمی انصاف میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے بلکہ شہادت بھی ضائع ہوجاتی ہے۔ تمام منصفان غیر ضروری تاریخ گردانی اور حاضر آمدہ گواہان کے بیانات قلمبند نہ کرنے اور غیر ضروری تاخیر کرنے کے طرزِ عمل سے اجتناب کریں۔ مظلوم افراد کی قانونی امداد کے لیے وکلاء پر جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس کے لیے مؤثر اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے۔
• آزاد جموں و کشمیر میں بار کونسل، سپریم کورٹ بار، ھائی کورٹ بار اور تمام ضلعی اور تحصیل بار ایسوسی ایشنز نے جس طرح سے آئین اور قانون کی حکمرانی، میرٹ کی بالادستی، بنیادی حقوق کے تحفظ، بار اور بینچ کی مضبوطی اور عدلیہ کی آزادی کے لئے اپنا کردار ادا کیا ہے میں اس پر انھیں خراج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں۔ بار اور بینچ کے مضبوط رشتہ سے ہی ریاست میں ایک مضبوط و مستحکم عدلیہ، قانون اور آئین کی حکمرانی اور مؤثر نظام فراہمی انصاف کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔ وکلاء ھمارے معاشرہ میں قانون کی حکمرانی کے لئے ایک مشعل کی حیثیت رکھتے ہیں اور میں نے ہمیشہ سے وکلاء کے مسائل کو ترجیح دی۔ حکومت وقت کو چاہیئے کہ وکلاء کے لئے تمام لازمی سہولیات فراہم کی جائیں اور ان کے لئے رہائشی کالونیوں کی تعمیر، ان کے بچوں کی فلاح و بہبود تعلیم اور صحت کی سہولیات کے لئے بھی قانون سازی کی جائے۔ علاوہ ازیں بار کونسل اور بار ایسوسی ایشنز کو ریاستی ادارہ کی حیثیت دی جائے تاکہ یہ فورم اور زیادہ مضبوط ھو کر ریاستی عوام کے لئے فراہمی انصاف میں اپنا کردار مزید بہتر انداز میں ادا کرنے کے قابل ہو سکیں۔۔
• آزاد جموں و کشمیر میں احتساب کا نظام انتہائی مایوس کن ہے۔ یہ ادارہ عملی طور پر غیر فعال ہے۔ کوئی بھی ایسا ادارہ نھیں جہاں پر بد عنوان اور بد دیانت افراد کے خلاف مؤثر قانونی کارروائی عمل میں لائی جا سکے۔۔عدالتیں بد عنوان افراد کے خلاف کارروائی کیاحکامات صادر کرتی ہیں لیکن ریاستی ادارے ان ہدایات کی روشنی میں ذمہ داران کے خلاف کارروائی عمل میں لانے سے گریزاں ہیں۔ ایسا قانون موجود ہونا چاہیئے جس کے تحت بد عنوان اور بد دیانت افراد کا احتساب ممکن ھو سکے اور ایسے افراد کو کٹہڑے میں لا کر قرار واقعی سزا دی جا سکے تاکہ آئندہ ریاستی اداروں سے بد عنوانی کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔۔ اس سلسلہ میں وزیراعظم آزاد کشمیر اور چیف سیکرٹری آزاد جموں وکشمیر ضروری اقدامات اٹھائیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اس سلسلہ میں اگر قانون سازی کی ضرورت ہو تو حکومت نیا قانون بنائے یا سابقہ قانون میں ترامیم عمل میں لائی جائیں۔
• جدید دور کے ریاستی اداروں میں میڈیا ایک اہم ادارہ شمار ہوتاہے اور بلا شبہ ہمارے پاس ایک آزاد ا اور غیر جانبدار میڈیا موجود ہے۔ میرے نزدیک نظام فراہمی انصاف میں عدالتوں نے قانون شکن افراد کو گرفت میں لاتے ہوئے کمزور، مظلوم اور بے زبان لوگوں کو حقوق دلانے ہوتے ہیں۔ میڈیا کو چاہیئے کہ ان مظلوم اور بے زبان شہریوں کی آواز بن کر فراہمی انصاف میں اپنا کردار ادا کرے۔ میں مجموعی طور پرپرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے مثبت کردارکو سراہتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ میڈیا آئینی حدود و قیود کا خیال رکھتے ہوئیلوگوں کو حقوق و فرائض کے بارے میں شعور و آگہی بہم پہنچاتا رہے گا۔ سوشل میڈیا پربعض اوقات بدوں تصدیق عدالتوں کے ججز صاحبان اور زیر کار مقدمات کی نسبت معاملات زیر بحث لائے جاتے ہیں جس سے نہ صرف قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے بلکہ غلط معلومات کی بناء پر عوام میں عدلیہ کے بارے میں غلط تاثرپیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اس لیے ضرورت اس امر کی ہیکہ سوشل میڈیا پر خبروں کی اشاعت سے متعلق پالیسی بنائی جائے اور غلط معلومات اور خبریں چلانے والے افراد اور چینلز کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔
• ماہ ربیع الاؤل نصف تک پہنچ چکا ہے۔۔ الحمدللہ آزاد جموں و کشمیر کے عوام فرقہ وارانہ ہم آہنگی، اتحاد و یگانگ اور یکجہتی کے ساتھ ایک پر امن فضا میں سانس لے رہے ہیں جس پر ہم اللہ تبارک و تعالیٰ کے شکر گزار ھیں۔ میں بطور چئیرمین اسلامی نظریاتی کونسل اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں کہ اس سلسلہ میں علمائے کرام کے مثبت اور انتہائی قابل تقلید کردار پر انھیں خراج تحسین پیش کیا جائے۔ پر امن ماحول کو قائم کرنے اور برقرار رکھنے میں تمام مکاتیب فکر کے علمائے کرام کے ساتھ ساتھ اسلامی نظریاتی کونسل اور علماء و مشائخ کونسل کا اہم ترین کردار رہا ہے۔مذہبی رواداری، ملی یکجہتی اور اتحاد امت کے لئے علمائے کرام کی خدمات نا قابل فراموش ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی ادارہ ہے لیکن اس کے معزز اراکین کی مراعات بہت ہی کم ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے اراکین کی تنخواہ اور مراعات کا تعین پاکستان میں قائم اسلامی نظریاتی کونسل کے اراکین کو حاصل مراعات کی روشنی میں کیا جائے تا کہ تفاوت کو دور کیا جا سکے۔۔
مظفرآباد – 14اگست 2023
آزاد جموں وکشمیر سپریم کورٹ میں پاکستان کے 76ویں جشن آزادی کے موقع پر پرچم کشائی کی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ چیف جسٹس آزاد جموں وکشمیر جسٹس راجہ سعید اکرم خان نے پرچم کشائی کی۔ اس موقع پرجج عدالت العظمیٰ جسٹس رضا علی خان، چیف جسٹس عدالت العالیہ جسٹس صداقت حسین راجہ، ججز صاحبان عدالت العالیہ جسٹس سردار لیاقت حسین، جسٹس سید شاہد بہار، جسٹس محمد اعجاز خان، سابق چیف جسٹس عدالت العظمیٰ چوہدری محمد ابراہیم ضیاء ججز صاحبان ماتحت عدالت ہاء، ممبران بارکونسل کے علاوہ سینئر وکلاء نے شرکت کی۔ پولیس کے چاک وچوبند دستے نے سلامی دی۔ اس موقع پر پاکستان و آزادکشمیر کے قومی ترانے بجائے گئے۔ بعدازاں جشن آزادی کا کیک کاٹا گیا۔ پرچم کشائی کی تقریب کے اختتام پر پاکستان کے استحکام، معاشی ترقی، پاکستان اور کشمیر کے شہداء، اداروں کی مضبوطی، کشمیر، فلسطین اور عراق کی آزادی اور تحریک آزادی کشمیرکی کامیابی کے لیے دعا کی گئی۔ تقریب کے اختتام پر چیف جسٹس عدالت العظمیٰ راجہ سعید اکرم خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج کا دن بہت اہم دن ہے۔ کشمیر و پاکستان کا روح و جان کا رشتہ ہے۔ قائداعظم نے کہا تھا پاکستان کی تکمیل کیلئے کشمیر ضروری ہے۔ پاکستان کی بقاء کیلئے کشمیریوں نے بہت قربانیاں دی ہیں۔ ہم پہلے پاکستانی پھر کشمیری ہیں۔ انشاء اللہ 76سال سے جاری تحریک آزادی کشمیر کامیاب ہوگی۔

Muzaffarabad :

On August 5, 2023, Mr. Justice Raza Ali Khan, Hon’ble Judge of the Supreme Court, took the oath as the Acting Chief Justice of Azad Jammu and Kashmir. The oath was administered by Mr. Sultan Mehmood Chaudhry, the esteemed President of Azad Jammu & Kashmir, at the Presidential Secretariat, President’s House Muzaffarabad.

صدارتی سیکرٹریٹ،ایوان صدر،کشمیر ہاؤس،اسلام آباد
10-07-2023
٭٭٭٭
اسلام آباد( )10 جولائی 2023ء
آزادجموں و کشمیر سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس خواجہ محمد نسیم نے قائمقام چیف جسٹس آزاد جموں وکشمیر کے عہدے کا حلف اُٹھایا۔آزادجموں و کشمیر کے صدر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے جسٹس خواجہ محمد نسیم سے قائمقام چیف جسٹس کے عہدے کا حلف لیا۔تقریب حلف برداری جموں و کشمیر ہاؤس اسلام آبادمیں منعقد ہوئی۔تقریب میں وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری انوارالحق،موسٹ سینئر وزیر کرنل(ر) وقار احمد نور،وزراء حکومت جاوید اقبال بڈھانوی،عبدالماجد خان،چیئرمین وزیراعظم معائنہ کمیشن پیر مظہر الحق،رکن اسمبلی محترمہ نبیلہ ایوب، جج سپریم کورٹ جسٹس رضا علی خان،چیف جسٹس ہائی کورٹ جسٹس صداقت حسین راجہ،ہائی کورٹ کے ججزجسٹس محمد اعجاز خان، جسٹس چوہدری خالد رشید،جسٹس میاں عارف حسین،چیف الیکشن کمشنر جسٹس(ر) عبدالرشید سلہریا،سابق جج ہائی کورٹ جسٹس سردار عبدالحمید، جسٹس(ر) سردار محمد حبیب ضیا،ایڈوکیٹ جنرل خواجہ محمد مقبول وار،چیئرمین وممبران سروسز ٹریبونل،جج الیکشن ٹریبونل،چیئرمین ماحولیاتی ٹریبونل،ایڈوکیٹ جنرل،ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل،وائس چیئرمین بار کونسل اور صدور سپریم کورٹ وہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن سمیت وکلاء اور سماجی شخصیات نے شرکت کی۔تقریب میں سیکرٹری قانون،انصاف و پارلیمانی امور ارشاداحمد قریشی نے قائمقام چیف جسٹس کا نوٹیفکیشن پڑھ کر سنایا۔
٭٭٭٭٭

)میرپور)پی آئی ڈی)15جون 2023

          چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر راجہ سعید اکر م خان نے کہا ہے کہ اداروں کی عمارات ریاست کا چہرہ ہوتی ہیں۔اس حوالے سے سپریم کورٹ رجسٹری برانچ میرپورکی عمارت اسٹیٹ آف آرٹ نوعیت کی تعمیر کی جائے گی جو آئندہ 50سالوں کی تمام ضروریات پوری کر ئے جس میں کورٹس رومز،چیمبرز اور دیگر دفاتر ہونگے اس عظیم ریاستی شاہکار منصوبہ کی تکمیل کے لیے حکومت آزاد کشمیر نے فراخدلی سے جگہ اور فنڈز فراہم کیے اور عدالتوں کی بلڈنگ کو پہلی دفعہ اپنی ترجیحات میں رکھا جس کے لیے حکومت کے شکر گزار ہیں۔بار اور بنچ کا رشتہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ وکلاء کا وقار عدالتوں سے ہے عدالتوں کا وقار وکلاء کے ساتھ ہے اس پر کوئی دو آراء نہیں ہیں۔سپریم کورٹ ریاست کی ایپکس کورٹ ہے جوفیصلے قانون وآئین کی حدود کے اندر رہ کر کرتی ہے۔عدالتی فیصلے کسی کی پسندیا ناپسند پر نہیں ہوتے اگر کسی کو عدالتی فیصلوں پر اطمینان نہ ہوتو وہ نظر ثانی میں جاسکتا ہے۔ہمیں کوئی شوق نہیں ہے کہ کسی کے دائرہ کار میں داخل ہوں اور اور اگر کوئی عدالتی معاملات میں مداخلت کرے گا تو پھر اسے قانون کا سامنا کرنا پڑے گا۔کوئی ادارہ قانون و آئین سے مبرا نہیں ہے۔ہر فرد کو اپنے حق کے لیے آخر کار عدالتوں میں ہی آنا پڑتاہے۔

            ان خیالات کا اظہار انھوں نے سپریم کورٹ رجسٹری برانچ میرپور کی نئی عمارت کاسنگ بنیا رکھنے کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اسٹیج سیکرٹری کے فرائض سیکرٹری PPHغلام بشیر مغل نے سرانجام دیے جبکہ ڈائریکٹرجنرلCDO اخلاق کیانی نے نئی تعمیر ہونے والی بلڈنگ کے بارے میں بریفنگ دی اور بتایا کہ ساڑھے گیارہ کنال رقبہ پر محیط سپریم کورٹ کی نئی عمارت تعمیر کی جائے گی جس کا ڈیزائن اسلام آباد اور لاہور کی ہائی کورٹس کے ماڈل کے طرز کا ہوگا۔تین منزلہ عمارت میں کورٹس رومز،چیمبرز،رجسٹری برانچ آفسز،لائبریری،کانفرنس رومز،ریکارڈ رومز،ججز،ایڈمن و پبلک پارکنگ اور دیگر سہولیات موجود ہونگی۔یہ منصوبہ قلیل المدت کا منصوبہ ہوگا اور ریاست جموں و کشمیر کی تاریخ کا عکاس ہو گا۔سپریم کورٹ رجسٹری برانچ کی سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس خواجہ محمد نسیم،جج سپریم کورٹ جسٹس رضا علی خان، چیف جسٹس عدالت العالیہ آزاد کشمیر جسٹس صداقت حسین راجہ،جج ہائی کورٹ میرپور اعجاز احمد خان،جج ہائی کورٹ جسٹس خالد رشیدچوہدری،سابق ایڈھاک جج سپریم کورٹ جسٹس محمد یونس طاہر،ممبر اسمبلی محترمہ نبیلہ ایوب،ڈپٹی رجسٹرار سپریم کورٹ افتخار شوکت،وائس چیئرمین بار کونسل راجہ ندیم ایڈووکیٹ،کمشنر چوہدری شوکت علی،ڈی آئی جی ڈاکٹر خالد محمود چوہان،ڈپٹی کمشنر چوہدری امجد اقبال،ایس ایس پی راجہ عرفان سلیم،چیف انجینئر تعمیرات عامہ تنویر انجم قریشی، ایس ای بلڈنگ اورنگزیب خان،ایکسین تعمیرات عامہ بلڈنگ شہزادہ اورنگزیب،صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن محمد زبیر راجہ ایڈووکیٹ،صدر ہائی کورٹ بار سردار حامد رضاایڈووکیٹ،صدر ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کامران طارق ایڈووکیٹ،سابق وائس چیئرمین بار کونسل راجہ خالد محمود خان،سابق صدر سپریم کورٹ بار سید نشاط کاظمی ایڈووکیٹ،سابق صدر بار حاجی انور خان اور وکلاء کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

            چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر راجہ سعید اکر م خان نے کہا کہ آادجموں و کشمیر کی عدالتوں نے ہمیشہ عوامی مفاد میں آئین و قانون کے مطابق فیصلے کیے ہیں۔میرپور میں تجاوزات کے خاتمے اور عوامی مفاد کے رقبہ جات کی واگزاری کے لیے تفصیلی فیصلے کیے اب ان واگزار رقبوں پر پارک اور گرین بلیٹ قائم ہو چکے ہیں شہری ان سے مستفید ہو رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ آئینی عدالتیں ہیں جن کا بنیادی کام آئین کی تشریح اور انصاف کی فراہمی ہے۔آئین ریاست کا سپریم قانون ہے عدالتیں پسند اور نا پسند کے بجائے ہمیشہ آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرتی ہیں جس کی تعمیل اور عملدرآمد ہر صورت کیا جانا ہوتا ہے یہی آئین اور قانون کی منشاہے۔ کوئی شخص یا ادارہ قانون و آئین سے بالاتر نہیں ہے۔سپریم کورٹ آزاد کشمیر کی ایپکس کورٹ ہے اس حوالے سے اس کورٹ کی عمارت بھی اسٹیٹ آف آرٹ ہونی چاہیے انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا یہ منصوبہ ریوایزنگ کے چکر میں نہیں جانا چاہیے۔سپریم کورٹ بلڈنگ کمیٹی کی مشاورت سے ایک ہی مرتبہ تمام ضروریات کے مطابق بلڈنگ ڈیزائن کی جائے اور مقررہ مدت میں ہی مکمل کیا جائے۔

Rawalakot (18-May-2023)

The Chief Justice of Azad Jammu & Kashmir, Mr. Justice Raja Saeed Akram Khan, the Senior Judge of the Supreme Court, Mr. Justice Khawaja Muhammad Nasim, the Judge of the Supreme Court, Mr. Justice Raza Ali Khan, the Judge of the High Court, Mr. Justice Sardar Liaquat Shaheen, District Judge Poonch Raja Shamreez Khan, Advocate General Khwaja Maqbool War, and President of the District Bar Rawalakot Sardar Khalid Mehmood Khan, collectively conducted a tree planting ceremony within the premises of the Judicial Complex in Rawalakot.

مظفرآباد: آزاد جموں و کشمیر کے معزز چیف جسٹس جناب جسٹس راجہ سعید اکرم خان 12 اپریل 2023 کو صدام حسین ایڈووکیٹ کو انرولمنٹ سرٹیفکیٹ دیتے ہوئے

میرپور (پی آئی ڈی)20مارچ2023ء
چیف جسٹس آزاد کشمیر جسٹس راجہ سعید اکرم خان نے سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس خواجہ محمد نسیم،جسٹس رضا علی خان کے ہمراہ سپریم کورٹ رجسٹری برانچ میرپور کی مختص شدہ اراضی پر مختلف قسم کے پودے لگائے اور سپریم کورٹ کی نئی تعمیر ہونے والی عمارت کے لیے مختص کی گئی جگہ کا معائنہ کیا۔اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل خواجہ وار، چیف پراسیکوٹر احتساب بیور و سردار امجدا سحاق، ڈپٹی کمشنر چوہدری امجد اقبال،صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن زبیر احمد راجہ ایڈووکیٹ اور وائس چیئرمین بار کونسل راجہ محمد ندیم خان، بانی صدر و وائس چیئرمین بار کونسل حاجی چوہدری منصف داد،صدر ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کامران طارق ایڈووکیٹ،نائب صدر سردار فضل رازق ایڈووکیٹ،ایکسین بلڈنگ شہزادہ اورنگزیب،راجہ شاہد ایڈووکیٹ نے بھی پودے لگائے۔اس موقع پر سپریم کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار افتخار شوکت،ناظم جنگلات ملک عمران صادق،مہتمم جنگلات راجہ عمران شفیع اور دیگر وکلاء اور افسران بھی موجود تھے۔

مظفرآباد  7مارچ2023
چیف جسٹس آزادجموں وکشمیر جسٹس راجہ سعید اکرم خان سے Cleft hospital گجرات پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر اعجاز بشیر کی سربراہی میں برطانیہ اور پاکستان سے آنے والے ڈاکٹرز کے 12 رکنی وفدکی ملاقات۔ کٹے ھونٹ اور تالو کی پیوندکاری کے سلسلہ میں آگاہی کے لیے چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر نے عائشہ بشیر ٹرسٹ گجرات کی جانب سے خدمات کو سراہتے ہوئے اسے انسانیت کی عظیم خدمت قرار دیا۔ چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر نے ڈاکٹرز سے بات چیت کے دوران آزاد جموں و کشمیر کے مختلف اضلاع میں کیمپ منعقد کرنے اور مصنوعی اعضا کی پیوند کاری کے لیے آگاہی مہم چلانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے برطانیہ سے آنے والی خواتین ڈاکٹرز کا خصوصی طورپر شکریہ ادا کرتے ہوئے انہیں انسانیت کی خدمت پر خراج تحسین پیش کیا۔ اس موقع پر عائشہ بشیر ٹرسٹ کے سربراہ ڈاکٹر اعجاز بشیر نے کہا کہ ان کا ہسپتال بچوں کے کٹے تالو اور کٹے ہونٹوں کی پیوندکاری مفت کرتا ہے۔ اس سلسلہ میں آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآبادمیں مڈ لینڈ ڈاکٹرز ہسپتال میں متعدد فری میڈیکل کیمپ منعقد کئے جا چکے ہیں جہاں پر بہت سے آپریشن ہوچکے ہیں۔ عائشہ بشیر ٹرسٹ مستقبل قریب میں مفت علاج کا یہ سلسلہ پورے آزاد جموں و کشمیر میں لے جانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

میرپور: یکم مارچ2023

ایڈہاک جج سپریم کورٹ جسٹس محمد یونس طاہر کی عدالتی خدمات کے اعتراف میں سپریم کورٹ رجسٹری برانچ میرپور میں الوداعی تقریب کا انعقاد کیا گیا، جس میں چیف جسٹس آزاد کشمیر جسٹس راجہ سعید اکرم خان ، سینئر جج سپریم کورٹ جسٹس خواجہ محمد نسیم ،جج سپریم کورٹ جسٹس رضا علی خان کے علاؤہ رجسٹرار سپریم کورٹ ،آفیسران و اہلکاران نے شرکت کی ، ایڈہاک جج جسٹس محمد یونس طاہر نے اپنے عرصہ کے دوران تقریباً 550 کے قریب فیصلے کئے ، تقریب میں ان کی عدالتی خدمات کو سراہا گیا، تقریب کے اختتام پر چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر نے جسٹس محمد یونس طاہر کو تحائف پیش کیے ۔

میرپور: 24 فروری2023ء

چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر جسٹس راجہ سعید اکرم خان نے کہاہے کہ آج کا دور کمپیوٹر ٹیکنالوجی کا دور ہے جدید ٹیکنالوجی کے بغیر کسی شعبہ میں ترقی سے آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔جدید اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی وقت کی ضرورت ہے جس نے ہر کام کو آسان کردیا ہے۔ جے ایس کنسلٹنٹ اور ان کی پوری ٹیم کو مبارکباد دیتا ہوں جنھوں نے پہلی بار آزادکشمیر میں قانون کے حوالے سے موبائیل ایپ متعارف کروا کر بہت بڑا کام کیا ہے جس کی جتنی بھی حوصلہ افزائی کی جائے و ہ کم ہے۔یہ موبائل ایپ وکلاء اور قانون سے وابستہ لوگوں کے لیے سنگ میل ثابت ہوسکتی ہے اس سے زیادہ سے زیادہ استفادہ حاصل کیا جائے۔اس موبائل ایپ کو استعمال کرکے جونیئر وکلاء اس ایپ سے ریسریچ کرکے کورٹ کے معاملات کو آسانی طور پر یکسو کرسکتے ہیں۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے جے ایس کنسلٹنٹ کی طرف سے قانون کے حوالے سے موبائل ایپ لانچ کرنے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب میں چیف جسٹس ہائی کورٹ جسٹس صداقت حسین راجہ، سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس خواجہ محمد نسیم،جج سپریم کورٹ جسٹس رضا علی خان،جج سپریم کورٹ جسٹس محمد یونس طاہر،ہائی کورٹ کے جج جسٹس سردار محمد اعجاز خان،جج ہائی کورٹ جسٹس چوہدری خالد رشید، جے ایس کنسلٹنٹ کے جاوید اقبال ستی ایڈووکیٹ، ممبران بار کونسل،سپریم کورٹ بار،ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن اور وکلاء کی بڑی تعداد موجود تھی۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر جسٹس راجہ سعید اکرم خان نے کہاہے۔جدید ٹیکنالوجی نے زندگی کی ہر شعبہ میں انقلاب برپا کیا ہوا ہے جس سے استفادہ حاصل کرکے ہم زندگی کے ہر میدان میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔قانون کے شعبہ میں آئی ٹی کا بڑا ہی اہم کردار ہے۔آج آئی ٹی کے شعبہ نے قانون کے معاملات کو بہت آسان کردیا ہے۔جے ایس کنسلٹنٹ اور ان کی پوری ٹیم نے آزادکشمیر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ آئی ٹی کے شعبہ میں بہت بڑا کام کیا ہے۔

مظفرآباد(پی آئی ڈی)09 فروری 2023
چیف جسٹس آزادجموں وکشمیر جسٹس راجہ سعید اکرام خان نے کہا ہے کہ آزاد جموں و کشمیر میں عدالتی نظام 1974 کے آئین کے تحت چل رہا ہے۔ سپریم کورٹ میں ایک چیف جسٹس اور دو ججز صاحبان ہوتے ہیں جب کہ بینچ مکمل نہ ہونے کی صورت میں ایڈہاک جج کی تقرری عمل میں لائی جاتی ہے۔ الحمدللہ آزاد جموں و کشمیر میں جرائم کی شرح بہت کم ہے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ بہتر انتظامی کنٹرول اور عدالتی فیصلوں کی وجہ سے قانون کی حکمرانی نظر آتی ہے۔ امن و امان کے معاملہ میں آزاد جموں و کشمیر کی مثال دی جا سکتی ہے۔ اس سلسلہ میں جہاں ہمارے عدالتی فیصلوں نے انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے وہاں پر میڈیا، کلاء، اساتذہ، طلبا اور سول سوسائٹی کا بنیادی کردار رہا ہے جو لائق تحسین ہے۔ ان خیالات کا اظہار چیف جسٹس آزادجموں وکشمیر نے شریعہ اکیڈمی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے 64 ویں کورس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ 64 ویں کورس کے وفد میں پاکستان کے چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان سے شریعہ اکیڈمی میں کورس کے لئے آنے والے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج، سینئر سول جج اور سول جج صاحبان کے علاوہ دفاعی اور سول اداروں میں تعینات لا ء آفیسران شامل تھے۔انہوں نے کہاکہ آزاد جموں و کشمیر تحریک آزادی کشمیر کا بیس کیمپ ہے۔ دنیا کو مسئلہ کشمیر کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ جنوبی ایشیا کی دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان امن قائم ہو سکے اور کشمیریوں کو ان کا حق حق خود ارادیت جو کہ سلامتی کونسل نے تسلیم کر رکھا ہے مل سکے۔آزاد جموں و کشمیر میں پن بجلی کے بے پناہ وسائل موجود ہیں۔ منگلا، نیلم جہلم، کوہالہ، گل پور، پترینڈ، کروٹ اور اس کے علاوہ دوسرے بہت سے پن بجلی کے منصوبے مکمل ہو چکے ہیں جبکہ دیگر بہت سے منصوبوں پر کام جاری ہے۔ آزاد کشمیر میں نیلم ویلی کے ساتھ ساتھ دیگر بہت سے علاقوں میں سیاحت کے مواقع موجود ہیں۔آزادکشمیر میں قیمتی پتھروں اور معدنیات کے ذخائر بھی موجودہیں۔ انہوں نے کہا کہ آزاد کشمیر کی ہزاروں سال پرانی ثقافتی اور خاندانی نظام کی تاریخ ہے۔ اس خطہ سے بڑے بڑی سیاستدان، علماء، جج، ماہرین قانون اور دیگر مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں لوگ گزرے ہیں۔ آزاد جموں و کشمیر میں ہمارا عدالتی نظام کسی قدر پاکستان کی عدالتوں سے مختلف ہے۔یہاں پر قتل کے مقدمہ کی سماعت دو رکنی عدالت کرتی ہے جس میں ڈسٹرکٹ جج کے ساتھ ڈسٹرکٹ قاضی بھی سماعت کرتا ہے۔ اسی طرح دیگر فوجداری مقدمات کی سماعت کے لئے بھی سول جج کے ساتھ تحصیل قاضی اور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج کے ساتھ ایڈیشنل ضلع قاضی کی عدالت قائم ہے۔انہوں نے کہا کہ ماتحت عدلیہ پر ہائی کورٹ کا انتظامی کنٹرول ہے۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں فوجداری مقدمات کی سماعت کے لئے شریعت اپیلٹ بینچ قائم ہیں۔ نڈر اور بیباک فیصلوں کی بناء پر ہماری عدلیہ ایک ممتاز مقام رکھتی ہے۔1974 کے آئین کے تحت سپریم کورٹ آزاد جموں و کشمیر کو صرف اپیل اور نظرثانی کا اختیار حاصل ہے۔ پاکستان سپریم کورٹ کی طرح آزاد کشمیر میں سپریم کورٹ کے پاس از خود نوٹس کا اختیار حاصل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت سپریم کورٹ آزاد جموں و کشمیر میں 2022 کے دائر شدہ مقدمات کی سماعت چل رہی ہے۔2021 کے محض 39 مقدمات زیر التواہیں جب کہ 2020 سے قبل کی دائر شدہ کوئی بھی اپیل سپریم کورٹ میں زیر سماعت نھیں ہے۔ کرنٹ ڈسپوزل کو برقرار رکھنے میں میرے فاضل بھائی جج صاحبان جسٹس خواجہ محمد نسیم، جسٹس رضا علی خان اور جسٹس محمد یونس طاہر کا اہم کردار ہے۔ انہوں نے کہا کہ آزاد کشمیر میں چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کا عہدہ چیف جسٹس سپریم کورٹ کے پاس ہوتا ہے۔ 2017 تک اسلامی نظریاتی کونسل کے ادارہ کو آئینی حیثیت حاصل نھیں تھی لیکن قانون سازی کے ذریعے اب اس ادارہ کو آئینی حیثیت حاصل ہے اور چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر کی سربراہی میں ہر تین ماہ میں کونسل کا اجلاس منعقد ہوتا ہے اور قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لئے عملی طور پر کام ہو رہا ہے۔ اس طرح چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر کو چیئرمین لا کمیشن، چیئرمین جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی کے ساتھ ساتھ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کے فرائض منصبی انجام دینا ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی آئندہ نسلوں کے لئے ایک ترقی یافتہ اور مضبوط پاکستان کی بنیادیں رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آخر میں شریعہ اکیڈمی کے شعبہ ٹریننگ کے سربراہ ڈاکٹر حبیب الرحمان نے چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر کا قیمتی وقت دینے پر شکریہ ادا کیا اور شیلڈ پیش کی جبکہ سپریم کورٹ آزاد جموں و کشمیر کی طرف سے بھی انھیں شیلڈ اور ڈائری دی گئی۔

مظفرآباد (پی آئی ڈی)10جنوری2023
ٍ چیف جسٹس آزادجمو ں وکشمیر جسٹس راجہ سعید اکرم خان نے کہا ہے کہ عدلیہ نے کسی شخص کو خوش نہیں کرنا بلکہ بلا خوف انصاف پر مبنی فیصلے کرنے ہیں۔ ہم نے اللہ کے سامنے جوابدہ ہونا ہے اور اپنے فیصلوں پر علمدرآمد کو یقینی بنانا ہے۔ عدلیہ کے وقار اور عزت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ ایڈمنسٹریشن آف جسٹس میں وکلا کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ کسی بھی معاشرہ میں انصاف کی فراہمی کے لیے بنچز اور وکلاء لازم وملزوم ہیں۔ وکلاء کی عزت ہمارا فرض ہے۔ وکلاء کا فرض بھی ہے کہ کیس کی تیاری کر کے آئیں۔ عدالت کی معاونت کریں تاکہ عوام کو انصاف کی فراہمی ممکن ہو سکتے۔اعلیٰ عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ بروقت مقدمات کا فیصلہ یقینی بنایا جائے اور اس سلسلہ میں خود کو ماتحت عدلیہ کے لئے بطور نظیر پیش کرے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ مستقبل ہمیشہ غیر یقینی ہوتا ہے۔ہمیں نظام فراہمی انصاف میں معنی خیز اور مؤثر تبدیلی کے لئے بر وقت منصوبہ بندی کرنا ہو گی اور مطلوبہ تبدیلیوں کو مہارت کے ساتھ لاگو کرنا ہو گا۔ الحمدللہ سپریم کورٹ آزاد جموں و کشمیر میں کوئی بھی پرانا مقدمہ زیر کارنہیں ہے۔ 2020 اور 2021 کے چند مقدمات پنڈنگ ہوں گے۔ فاضل چیف جسٹس ہائی کورٹ کی جانب سے بتائے جانے والے اعدادو شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہائی کورٹ اور ماتحت عدلیہ میں قابل ستائش رفتار سے مقدمات کے فیصلے ہورہے ہیں اور میں اس کانفرنس کی وساطت سے فاضل چیف جسٹس ہائی کورٹ، ججز صاحبان اور ماتحت عدلیہ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ وہ مستقبل میں بھی یہ سلسلہ جاری رکھیں گے۔ ان خیالات کا اظہار چیف جسٹس آزادجموں و کشمیر جسٹس راجہ سعید اکرم خان نے منگل کے روز آزادجموں وکشمیر عدالت العالیہ کے زیر اہتمام ”فراہمی انصاف میں تاخیر کے اسباب“ کے عنوان کے حوالہ سے منعقدہ10ویں جو ڈیشل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ جوڈیشل کانفرنس سے چیف جسٹس آزادجموں وکشمیر عدالت العالیہ جسٹس صداقت حسین راجہ، جج ہائی کورٹ چوہدری خالد رشید، ایڈووکیٹ جنرل خواجہ محمد مقبول وار، سیکرٹری قانون وپارلیمانی امور ارشاد احمد قریشی، وائس چیئرمین سردار طارق مسعود خان، صدر سپریم کورٹ بار محمد زبیر راجہ ایڈووکیٹ، صدر ہائی کورٹ بار ہارون ریاض مغل، رجسٹرار عدالت العالیہ راجہ راشد نسیم خان و دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا۔ جبکہ اس موقع پر سینئر جج سپریم کورٹ جسٹس خواجہ محمد نسیم، ججز سپریم کورٹ جسٹس رضا علی خان،، جسٹس محمد یونس طاہر، معزز ججز آزادکشمیر عدالت العالیہ جسٹس محمد حبیب ضیاء، جسٹس میاں محمد عارف،جسٹس سردار لیاقت حسین، جسٹس سید شاہد بہار،جسٹس محمد اعجاز خان، جسٹس چوہدری خالد رشید، سابق وزیراعظم راجہ محمد فاروق حیدر خان،اپوزیشن لیڈر چوہدری محمد لطیف اکبر، وزراء حکومت خواجہ فاروق احمد، دیوان علی خان چغتائی، چوہدری محمد رشید، ممبر اسمبلی سردار جاوید ایوب، چیف الیکشن کمشنر عبدالرشید سلہریا،سینئر ممبر الیکشن کمیشن راجہ محمد فاروق نیا، چیئرمین و ممبران سروس ٹریبونل،کسٹوڈین جائیداد متروکہ، سیکرٹری صاحبان حکومت،سربراہان محکمہ جات، صدور سپریم کورٹ،ہائی کورٹ بارایسوی ایشن،ممبران سپریم کورٹ و ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن،صدور و جنرل سیکرٹری ضلعی بار ایسو سی ایشن، ڈسٹرکٹ و سیشن ججز صاحبان، ضلع قاضی صاحبان، سینئر وکلاء،خواتین وکلاء اور ہائی کورٹ کے آفیسران و سٹاف بھی موجود تھے۔ جوڈیشل کانفنرنس سے خطاب کر تے ہوئے چیف جسٹس آزادکشمیر جسٹس راجہ سعید اکرم خان نے کہا کہ آزاد، غیر جانبدار اور موثر عدلیہ کی موجودگی کے بغیر مؤثر انصاف کی فراہمی ناممکن ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عدالتوں، ججوں اور عدالتی عملے کو کسی بھی قسم کے دباؤ، اثر و رسوخ، مداخلت یا پابندی کے بغیر اپنا کام کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ عدالتی امور کی انجام دہی میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ قانون کے اطلاق کے ساتھ ساتھ پرامن اور انصاف پسند معاشرے کے قیام میں رکاوٹ بنتی ہے۔عدالتی فیصلوں اور احکامات کا نفاذ اور ان پر عمل درآمد قانونی افراد اور انتظامی اداروں پر منحصر ہے۔ آئین کے تحت تمام ریاستی ادارے عدالتوں کی معاونت کے پابند ہیں۔انہوں ننے کہا کہ عدالتی احکامات پر عمل درآمد تمام ریاستی اداروں اور افراد کی آئینی ذمہ داری ہے اور خلاف ورزی موجب سزا ہے۔ ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف عدالتی فیصلوں پر من و عن عمل درآمد کریں بلکہ ترجیحی بنیادوں پر عدلیہ کے انفراسٹرکچر میں بہتری کے لئے ضروری وسائل کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ تاخیری انصاف کو روکنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ججز خود مختار ہوں اور مؤثر طریقے سے مقدمات کا فیصلہ کرنے اور کسی بھی تاخیر کو روکنے کے قابل ہو سکیں۔ جب عدالتی نظام غیر موثر ہو جاتا ہے تو معاشرہ کے ناقص افراد قانون کی تعبیر و تشریح اپنی مرضی سے کرتے ہیں۔ قانون سے کوئی بھی بالا تر نھیں ہے حتیٰ کہ کتنا ہی بڑا عہدیدار یا حکومتی ہی کیوں نہ ہو سب قانون کے تابع ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ قانون کے سامنے سب برابر ہیں اور کوئی شخص اس سے زیادہ کا حقدار نھیں ہے جو اسے قانون کے مطابق ملنا چاہیئے۔چیف جسٹس نے کہا کہ فراہمی انصاف میں جہاں عدلیہ کا بھرپور کردار ہے وہاں پر وکلاء کے کاندھوں پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ بار کونسل اور تمام بار ایسوسی ایشنز کو اس سلسلہ میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ جب تک وکیل مقدمہ عدالتوں کی صحیح معاونت نھیں کریں گے حصول انصاف کا خواب شرمندہ تعبیر نھیں ہو سکتا۔انہوں نے کہا کہ فراہمی انصاف میں حائل ایک بڑی رکاوٹ عدالتوں کے قیام میں تاخیر بھی ہے۔ الحمدللہ اس سلسلہ میں چیف جسٹس ہائی کورٹ نے خصوصی دلچسپی لی ہے اور انھوں عوام کو دہلیز پر فراہمی انصاف کے تصور کو مد نظر رکھتے ہوئے ضرورت کے پیش نظرنئی عدالتوں کے قیام اور عملہ کی تعیناتی پر توجہ دی ہے۔چیف جسٹس آزادجموں وکشمیر نے کہا کہ ہمیں کام کرنا آتا ہے قانو ن کی بالا دستی،انصاف کی فراہمی اور نظام کی بہتری کے لیے تمام اقدامات اٹھائیں گے۔ اس موقع پر جوڈیشل کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر سب کو مبارکباد دیتا ہوں۔
جوڈیشل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آزادجموں وکشمیر عدالت العالیہ جسٹس صداقت حسین راجہ نے کہا کہ ہر ادارہ کو اپنے آئینی دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے اپنے فرائض سرانجام دینے ہوتے ہیں۔ آئین اور قانون میں Separation of powers کا جو تصور دیا گیا ہے، اس کو کبھی بھی Conflict of powerکے طور پر نہیں لیا جانا چاہیے۔ یہ المیہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب Duel or Duet کا سوال جنم لیتا ہے اور یہ سوال یہاں پر بھی ریاست کے اندر لوگوں کی فلاح وبہبود کے لیے سرانجام دینے والے تمام اداروں کو Duetجوڑی کی ضرورت ہے نہ کہ Duel اور ان اختیارات کو مہذب معاشرے کے اندر اختیارات کی تقسیم کے فلسفہ پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ انہو ں نے کہا کہ ماضی ہمیشہ ماضی کی غلطیوں اور تجربات سے فائدہ اٹھانے کے لیے زندہ رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انصا ف کی فراہمی اور بنیادی حقوق کی حفاظت عدالتی نظام کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے اور اسی ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے عدالتی نظرثانی judicial Review کا اختیار اعلیٰ عدالتیں استعمال کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عدالتی نظام کو موثر بنانے کے لیے قانون کی حکمرانی، شخصی آزادی اور بنیادی حقوق کی حفاظت کرنا ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی منشاء کے تحت کشمیری عوام کے مسلمہ حق خودارادیت کے حصول تک ہم ایک عارضی آئینی ڈھانچے میں کام کر رہے ہیں۔ ان کم وبیش7عشروں پر محیط عرصہ میں آزادکشمیر کی اعلی عدلیہ نیت حتی المقدور انصاف رسانی کے لیے کاوشیں کی ہیں جو تاریخ کا حصہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ریاست میں انتظامیہ کو نظام حکومت چلانے کی غرض سے آئینی قواعد AJ&K Rules of Business 1985نافذ ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ انتظامی انصاف کیء فراہمی میں رولز آف بزنس پر من وعن عمل کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے انتظامی امور کی انجام دہی میں ان قواعد سے دانستہ یا نادانستہ پہلو تہی کی جاتی ہے۔ نتیجتا ایسا انتظامی حکمنامہ عدالت کے روبرو آ جاتا ہے۔ خوعش قسمتی سے کانفرنس کے شرکاء میں آزادکشمیر کے Stake Holdersاور نمایا ں شخصیات تشریف فرما ہیں جو کسی نہ کسی طور اقتدار و اختیار سے وابستہ ہیں یا رہے ہیں۔ اس لیے ان کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے

کراچی 06 جنوری 2023
چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر جسٹس راجہ سعید اکرم خان کے اعزاز میں دورہ کراچی کے موقع پر سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن پاکستان یاسین آزاد ایڈووکیٹ کی جانب سے مقامی ہوٹل میں اعشائیہ کا اہتمام ، اعشائیہ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر جسٹس راجہ سعید اکرم خان نے کہا کہ کراچی میں جو پیار ملا ناقابل فراموش ہے، عدلیہ اور بار کا گہرا تعلق ہے میں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے عزت بخشی، انھوں نے کہا کہ کشمیر پاکستان کا لازمی جز ہے، 75 سالوں سے کشمیری تکمیل پاکستان کی خاطر اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کر رہےہیں،بھارت آئے روز انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتا آیا ہے اس کےباوجود عالمی ادارے خاموش ہیں جو کہ لمحہ فکریہ ہے،چیف جسٹس آزاد کشمیر نے کہا کہ پاکستان چائینہ اقتصادی راہداری میں کشمیر گٹ وے ہے، جس سے پورے پاکستان میں خوشحالی آئے گی، اس کے علاوہ آزاد کشمیر کے میگا پراجیکٹس جن میں نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ ،کوہالہ و منگلا ڈیم و دیگر شامل ہیں جن کی بدولت پاکستان روشن ہے، میرپور منگلا ڈیم کی تعمیر میں کشمیریوں نے اپنے آباؤ اجداد کی قبروں پر ڈیم کی تعمیر سے پاکستان کو روشن کیا ۔تقریب سے سابق صدر سپریم کورٹ بار پاکستان یاسین آزاد ایڈووکیٹ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں چیف جسٹس آزاد کشمیر جسٹس راجہ سعید اکرم خان کا شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے کراچی کے مختصر دورے کے دوران اعشائیہ میں شرکت کی ، اعشائیہ کی تقریب میں کراچی کے علاؤہ اسلام آباد ، لاڑکانہ ، سکھر اور حیدرآباد سے بار ایسوسی ایشنز کے عہدیداران و ممبرانِ نے شرکت کی ، تقریب میں سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم، سابق صدر سپریم کورٹ بار پاکستان وممبر پاکستان بار کونسل سید قلب حسن شاہ،ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل سندھ قاضی محمد بشیر ،ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ محمد رفیق راجوری ،صدر سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن سلیم منگریو ایڈووکیٹ ،سابق صدر سندھ ہائی کورٹ بار خالد جاوید ایڈوکیٹ ،سالم سلام انصاری ایڈووکیٹ ،منیر اے ملک ایڈووکیٹ ممبر سندھ بار کونسل ، سردار عزیز نائب صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن پاکستان ، فرید ڈایو ایڈووکیٹ سپریم کورٹ و پرنسپل ایس ایم لاء کالج ، ندیم قریشی کسٹم جج، وقار عباسی ایڈووکیٹ جنرل سیکرٹری کراچی بار، سیکرٹری سندھ ہائی کورٹ بار عامر نواز ورائچ ایڈووکیٹ ، عصمت مہدی ایڈووکیٹ ، سابق صدر سپریم کورٹ بار پاکستان صلاح الدین گنڈا پور ایڈووکیٹ، سید ذوالفقار حیدر شاہ ایڈووکیٹ ایگزیکٹو ممبر سپریم کورٹ بار پاکستان و دیگر نے شرکت کی ، تقریب کے اختتام پر معززین شرکاء نے تقریب کے مہمان خصوصی چیف جسٹس آزاد کشمیر جسٹس راجہ سعید اکرم خان کو سندھی اجرک پہنائی۔دریں اثنا صدر سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن سلیم منگوریو نے چیف جسٹس آزاد کشمیر کے اعزاز میں ظہرانہ کا اہتمام کرنے اور شرکت کی دعوت دی ،لیکن مختصر دورہ اور وقت کی قلت کے باعث شرکت ممکن نہ ہو سکی تاہم چیف جسٹس آزاد کشمیر نے یقین دہانی کروائی کہ بہت جلد دوبارہ کراچی دورہ کے دوران سندھ ہائی کورٹ بار کا وزٹ کروں گا .

کراچی 02 جنوری 2023ء

چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر جسٹس راجہ سعید اکرم خان کی قائد اعظم محمد علی جناح کے مزارپر حاضری،چیف جسٹس آزاد کشمیر نے مزار پر پھولوں کی چادر چڑھائی اور دعا کی،چیف جسٹس آزاد کشمیر نے مہمانوں کی کتاب میں اپنے تاثرات درج کئے۔ مزار پر پہنچے پر نیول دستے نے سلامی پیش کی۔